خموشی بول اٹھے ہر نظر پیغام ہو جائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خموشی بول اٹھے ہر نظر پیغام ہو جائے
by شکیب جلالی

خموشی بول اٹھے ہر نظر پیغام ہو جائے
یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے

ستارے مشعلیں لے کر مجھے بھی ڈھونڈنے نکلیں
میں رستہ بھول جاؤں جنگلوں میں شام ہو جائے

میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں
خود اپنی چاپ سن کر لرزہ بر اندام ہو جائے

مثال ایسی ہے اس دور خرد کے ہوش مندوں کی
نہ ہو دامن میں ذرہ اور صحرا نام ہو جائے

شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse