خمستانِ ازل کا ساقی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خمستانِ ازل کا ساقی
by ظفر علی خان

پہنچتا ہے ہر اک مے کش کے آگے دور جام اس کا
کسی کو تشنہ لب رکھتا نہیں ہے لطف عام اس کا

گواہی دے رہی ہے اس کی یکتائی پہ ذات اس کی
دوئی کے نقش سب جھوٹے ہیں سچا ایک نام اس کا

ہر اک ذرہ فضا کا داستان اس کی سناتا ہے
ہر اک جھونکا ہوا کا آ کے دیتا ہے پیام اس کا

میں اس کو کعبہ و بت خانہ میں کیوں ڈھونڈنے نکلوں
مرے ٹوٹے ہوئے دل ہی کے اندر ہے قیام اس کا

مری افتاد کی بھی میرے حق میں اس کی رحمت تھی
کہ گرتے گرتے بھی میں نے لیا دامن ہے تھام اس کا

وہ خود بھی بے نشاں ہے زخم بھی ہیں بے نشاں اس کے
دیا ہے اس نے جو چرکا نہیں ہے التیام اس کا

نہ جا اس کے تحمل پر کہ ہے اب ڈھب گرفت اس کی
ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse