خلش خار ہو وحشت میں کہ غم ٹوٹ پڑے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خلش خار ہو وحشت میں کہ غم ٹوٹ پڑے
by شاد لکھنوی

خلش خار ہو وحشت میں کہ غم ٹوٹ پڑے
پر پھپھولوں میں الٰہی نہ مرے پھوٹ پڑے

دن دو پہرے ہی شفق شام جہاں میں پھولے
آسماں پر لب لعلیں کے اگر چھوٹ پڑے

دم نکل جائے خفا ہو کے غم کاکل میں
جو پڑے حلق میں پھندا وہ گلا گھوٹ پڑے

ہجر ساقی میں دہن سے مرے اچھو ہو کر
جو پیوں آب بقا بھی وہ نکل گھوٹ پڑے

حرمت بنت عنب میں نہیں کچھ شک اے شادؔ
واعظیں بیہدا بکتے ہیں بکیں چھوٹ پڑے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse