خفا مت ہو مجھ کو ٹھکانے بہت ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خفا مت ہو مجھ کو ٹھکانے بہت ہیں
by عبدالرحمان احسان دہلوی

خفا مت ہو مجھ کو ٹھکانے بہت ہیں
مرا سر رہے آستانہ بہت ہیں

بہت دور ہے اپنے نزدیک تو بھی
تجھے یاد کافر بہانے بہت ہیں

بہانے نہ کر مجھ سے اے چشم گریاں
ابھی اشک مجھ کو بہانے بہت ہیں

مرے چشم و دل اور جگر سب ہیں حاضر
تو خاطر نشاں رکھ نشانے بہت ہیں

کشش دل کی ہی کام کرتی ہے ورنہ
فسوں سینکڑوں ہیں فسانے بہت ہیں

جنوں نقد داغ جگر مانگتا ہے
یے کہہ دو کہ اب تو خزانے بہت ہیں

بہت کم ہے سچ اس زمانہ میں احساںؔ
یہاں جھوٹ کے کارخانے بہت ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse