خفا اس سے کیوں تو مری جان ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خفا اس سے کیوں تو مری جان ہے
by میر اثر

خفا اس سے کیوں تو مری جان ہے
اثرؔ تو کوئی دم کا مہمان ہے

تیرے عہد میں سخت اندھیر ہے
کہ عشق و ہوس ہر دو یکسان ہے

کہوں کیا خدا جانتا ہے صنم
محبت تری اپنا ایمان ہے

دل و غم میں اور سینہ و داغ میں
رفاقت کا یاں عہد و پیمان ہے

تجھے بھی کبھو کچھ مرا ہے خیال
مجھے مرتے مرتے ترا دھیان ہے

نہ دیکھا پھر آخر کہ مشکل پڑی
ادھر دیکھنا ایسا آسان ہے

قیامت یہی ہے کہ ابرو کماں
تجھے جن نے دیکھا سو قربان ہے

گلوں کی طرح چاک کا اے بہار
مہیا ہر اک یاں گریبان ہے

بھلا دید کر لیجئے مفت ہے
کہ اب تک ستم گر وہ انجان ہے

مجھے قتل کرتے تو اونیں کیا
پر اپنے کئے پر پشیمان ہے

نہیں ہے یہ قاتل تغافل کا وقت
خبر لے کہ باقی ابھی جان ہے

تأمل کہاں ورنہ چوں غنچہ یاں
جو سر ہے سو غرق گریبان ہے

یہ کیا ہو گیا دیکھتے دیکھتے
اثرؔ میں تو میں وہ بھی حیران ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse