خط کی رخساروں پر اِس گُل کہ جُو تحریریں ہیں دو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خط کی رخساروں پر اِس گُل کہ جُو تحریریں ہیں دو
by نظیر اکبر آبادی

خط کی رخساروں پر اِس گُل کہ جُو تحریریں ہیں دو
ہے وُہ مصحف رخ کے جس کہ ساتھ تفسیریں ہیں دو

حُسن وُہ ترک ستم گر ہے کے جس کہ پاس چار
ترکشیں مژگاں کی اُور ابرو کی شمشیریں ہیں دو

یا بلاؤ ہم کو پنہاں یا تم آؤ چھپ کہ یاں
گر ملا چاہو تُو ملنے کی یہ تدبیریں ہیں دو

فی الحقیقت فیض جذب عشق سے باہم ہیں ایک
لیلیٰ و مجنُوں کی گو ظاہر میں تصویریں ہیں دو

دِل دیا اور کی وفا اس کی جفاؤں پر نظیرؔ
غور سے دیکھا تُو یہ اپنی ہی تقصیریں ہیں دو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse