خط لکھ کے کوئی سادہ نہ اس کو ملول ہو
Appearance
خط لکھ کے کوئی سادہ نہ اس کو ملول ہو
ہم تو ہوں بد گمان جو قاصد رسول ہو
چاہوں تو بھر کے کولی اٹھا لوں ابھی تمہیں
کیسے ہی بھاری ہو مرے آگے تو پھول ہو
سرمہ جو نور بخشے ہے آنکھوں کو خلق کی
شاید کہ راہ یار کی ہی خاک دھول ہو
جاویں نثار ہونے کو ہم کس بساط پر
اک نیم جاں رکھیں ہیں سو وہ جب قبول ہو
ہم ان دنوں میں لگ نہیں پڑتے ہیں صبح و شام
ورنہ دعا کریں تو جو چاہیں حصول ہو
دل لے کے لونڈے دلی کے کب کا پچا گئے
اب ان سے کھائی پی ہوئی شے کیا وصول ہو
ناکام اس لیے ہو کہ چاہو ہو سب کچھ آج
تم بھی تو میرؔ صاحب و قبلہ عجول ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |