خط دیکھیے دیدار کی سوجھی یہ نئی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خط دیکھیے دیدار کی سوجھی یہ نئی ہے
by شاد لکھنوی

خط دیکھیے دیدار کی سوجھی یہ نئی ہے
ویفر کی جگہ آنکھ لفافے پہ لگی ہے

خاکستر تن خیر ہو برباد ہوئی ہے
اڑتی یہ خبر گرد پریدہ سے سنی ہے

ہم خوابیٔ جاناں مری قسمت میں لکھی ہے
سوتے میں زلیخا کی طرح آنکھ لگی ہے

لو عشق کی وہ ہے کہ پتنگے کو جلا کر
سر میں جو لگی شمع کے تلوے میں بجھی ہے

مٹ جائے گا ہر آدم خاکی کا مرقع
تصویر گلی جو ہے بگڑنے کو بنی ہے

رونے کو میں ہوں بارش باراں کے مقابل
آنسو جو تھمے دیدۂ پر نم تو ہنسی ہے

جی جاؤں کہ مر جاؤں میں اس نالہ کشی سے
نتھنوں میں ہے دم نے کی طرح ناک میں جی ہے

ٹپکیں ہوسیں کیوں نہ پسینے سے ہمارے
ہر رونگٹے سے خواہش دل پھوٹ بہی ہے

سینے پہ دھرے ہاتھ نہ مجھ سوختہ جاں کے
پہلو میں کلیجے کی جگہ آگ دبی ہے

قاضی کا ارادہ ہے کہ ہے مے کا مچلکہ
توبہ در مے خانہ پہ دینے کو ڈھہی ہے

اب شادؔ غزل اور کہو قید روی میں
اس کے تو سب ابیات میں ایطائے جلی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse