خط بڑھا کاکل بڑھے زلفیں بڑھیں گیسو بڑھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خط بڑھا کاکل بڑھے زلفیں بڑھیں گیسو بڑھے
by محمد ابراہیم ذوق

خط بڑھا کاکل بڑھے زلفیں بڑھیں گیسو بڑھے
حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے

بعد رنجش کے گلے ملتے ہوئے رکتا ہے جی
اب مناسب ہے یہی کچھ میں بڑھوں کچھ تو بڑھے

بڑھتے بڑھتے بڑھ گئی وحشت وگرنہ پہلے تو
ہاتھ کے ناخن بڑھے سر کے ہمارے مو بڑھے

تجھ کو دشمن واں شرارت سے جو بھڑکاتے ہے روز
چاہتے ہیں اور شر اے شوخ آتش خو بڑھے

کچھ تپ غم کو گھٹا کیا فائدہ اس سے طبیب
روز نسخے میں اگر خرفہ گھٹے کاہو بڑھے

پیشوائی کو غم جاناں کی چشم دل سے ذوقؔ
جب بڑھے نالہ تو اس سے بیشتر آنسو بڑھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse