خضر کیا ہم تو اس جینے میں بازی سب سے جیتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خضر کیا ہم تو اس جینے میں بازی سب سے جیتے ہیں
by شاد عظیم آبادی

خضر کیا ہم تو اس جینے میں بازی سب سے جیتے ہیں
دم اب اکتا گیا اللہ اکبر کب سے جیتے ہیں

سمجھ لے قاصدوں نے کچھ تو ایسی ہی خبر دی ہے
کہیں کیا تجھ سے اے ناصح کہ جس مطلب سے جیتے ہیں

کسی حالت نہ ہم سے بڑھ سکے گی رات فرقت کی
کہ ہم بازی سیہ بختی میں بھی اس شب سے جیتے ہیں

دم اپنا گھٹ کے کب کا ہجر جاناں میں نکل جاتا
مددگاریٔ شور نعرۂ یا رب سے جیتے ہیں

اسے باور کر اے غم خوار کب کے مر گئے ہوتے
پیام وصل جب سے سن لیا ہے تب سے جیتے ہیں

زباں قابو میں ہے سننے کو تشبیہیں سنے جاؤ
نزاکت میں کہاں اوراق گل اس لب سے جیتے ہیں

عبث دریافت کرتے ہو سبب اس سخت جانی کا
خدا جانے کہ ہم اے شادؔ کس مطلب سے جیتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse