خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جھک کے کھڑکی میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جھک کے کھڑکی میں
by شکیب جلالی

خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جھک کے کھڑکی میں
کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں

یہ آدمی ہیں کہ سائے ہیں آدمیت کے
گزر ہوا ہے مرا کس اجاڑ بستی میں

جھکی چٹان پھسلتی گرفت جھولتا جسم
میں اب گرا ہی گرا تنگ و تار گھاٹی میں

زمانے بھر سے نرالی ہے آپ کی منطق
ندی کو پار کیا کس نے الٹی کشتی میں

جلائے کیوں اگر اتنے ہی قیمتی تھے خطوط
کریدتے ہو عبث راکھ اب انگیٹھی میں

عجب نہیں جو اگیں یاں درخت پانی کے
کہ اشک بوئے ہیں شب بھر کسی نے دھرتی میں

مری گرفت میں آ کر نکل گئی تتلی
پروں کے رنگ مگر رہ گئے ہیں مٹھی میں

چلو گے ساتھ مرے آگہی کی سرحد تک
یہ رہ گزار اترتی ہے گہرے پانی میں

میں اپنی بے خبری سے شکیبؔ واقف ہوں
بتاؤ پیچ ہیں کتنے تمہاری پگڑی میں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse