خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جھک کے کھڑکی میں
خزاں کے چاند نے پوچھا یہ جھک کے کھڑکی میں
کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں
یہ آدمی ہیں کہ سائے ہیں آدمیت کے
گزر ہوا ہے مرا کس اجاڑ بستی میں
جھکی چٹان پھسلتی گرفت جھولتا جسم
میں اب گرا ہی گرا تنگ و تار گھاٹی میں
زمانے بھر سے نرالی ہے آپ کی منطق
ندی کو پار کیا کس نے الٹی کشتی میں
جلائے کیوں اگر اتنے ہی قیمتی تھے خطوط
کریدتے ہو عبث راکھ اب انگیٹھی میں
عجب نہیں جو اگیں یاں درخت پانی کے
کہ اشک بوئے ہیں شب بھر کسی نے دھرتی میں
مری گرفت میں آ کر نکل گئی تتلی
پروں کے رنگ مگر رہ گئے ہیں مٹھی میں
چلو گے ساتھ مرے آگہی کی سرحد تک
یہ رہ گزار اترتی ہے گہرے پانی میں
میں اپنی بے خبری سے شکیبؔ واقف ہوں
بتاؤ پیچ ہیں کتنے تمہاری پگڑی میں
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.
Public domainPublic domainfalsefalse