خرقہ پوشی میں خود نمائی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خرقہ پوشی میں خود نمائی ہے
by داؤد اورنگ آبادی

خرقہ پوشی میں خود نمائی ہے
ہاتھ بس کاسۂ گدائی ہے

بوریا بھی نہیں اسے درکار
جس کے تئیں شوق بے ریائی ہے

گل سب ہنستے ہیں بزم گلشن میں
عشق بلبل مگر ریائی ہے

جلد جاتی ہے آسماں اوپر
آہ میری عجب ہوائی ہے

شمع مینا کے نور سوں ساقی
محفل دل میں روشنائی ہے

ہر گھڑی دیکھتا ہے درپن کوں
شوخ میں طرز خود نمائی ہے

جب سوں دیکھا ہوں اس کی زلف دراز
تب سوں مجھ فکر میں رسائی ہے

کاں یو دیکھا ہے خواب میں مخمل
تجھ کف پا میں جو صفائی ہے

کیوں نہ ہوئے ماہ نو مثال عزیز
جس منے رسم کم نمائی ہے

دست گل رو میں پہنچنے داؤدؔ
کاغذ خط مرا حنائی ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.