خرد فریب نظاروں کی کوئی بات کرو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خرد فریب نظاروں کی کوئی بات کرو
by شکیب جلالی

خرد فریب نظاروں کی کوئی بات کرو
جنوں نواز بہاروں کی کوئی بات کرو

کسی کی وعدہ خلافی کا ذکر خوب نہیں
مرے رفیق ستاروں کی کوئی بات کرو

زمانہ ساز زمانے کی بات رہنے دو
خلوص دوست کے ماروں کی کوئی بات کرو

گھٹا کی اوٹ سے چھپ کر جو دیکھتے تھے ہمیں
انہیں شریر ستاروں کی کوئی بات کرو

زمانہ ذکر حوادث سے کانپ اٹھتا ہے
سکوں بہ دوش کناروں کی کوئی بات کرو

نہیں ہے حد نظر تک وجود ساحل کا
فضا مہیب ہے دھاروں کی کوئی بات کرو

سلام شوق لیے تھے کسی نے جن سے شکیبؔ
انہیں لطیف اشاروں کی کوئی بات کرو

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse