خراب و خستہ ہوئے خاک میں شباب ملا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خراب و خستہ ہوئے خاک میں شباب ملا
by حفیظ جونپوری

خراب و خستہ ہوئے خاک میں شباب ملا
ہمیں یہ دل نہ ملا جان کا عذاب ملا

کسی کی یاد میں بے شبہ بے قرار ہے تو
کہ آج ہے تری شوخی میں اضطراب ملا

شراب پی تو گنہ گار میں ہوا واعظ
برائی کی جو مری تجھ کو کیا ثواب ملا

ملے وہ عیش گزشتہ بھی اے خدا مجھ کو
بہشت میں جو دوبارہ مجھے شباب ملا

بڑی کریم ہے پیر مغاں کی بھی سرکار
کہ جب ملا مجھے ساغر علی الحساب ملا

کچھ آرزو نہ رہی ترک آرزو کے سوا
مرے سوال کا ایسا مجھے جواب ملا

گیا جو دل تو ملا داغ آرزو مجھ کو
اک آفتاب جو کھویا اک آفتاب ملا

حفیظؔ تم کو وہ ناکام وصل کہتے ہیں
برا نہ مانو یہ اچھا تمہیں خطاب ملا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse