خدا ہی پہنچے فریادوں کو ہم سے بے نصیبوں کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خدا ہی پہنچے فریادوں کو ہم سے بے نصیبوں کے
by ولی عزلت

خدا ہی پہنچے فریادوں کو ہم سے بے نصیبوں کے
ہمارے دل کباب اور تو پئے پیالے رقیبوں کے

خزاں میں برگ گل اور خار و خس نہیں صحن گلشن میں
پڑے ہیں لخت دل اور ٹوٹے نالے عندلیبوں کے

بہار آئی دوانو سنتے ہو بلبل کی فریادیں
یہ آوازے ہیں فوج موسم گل کے نقیبوں کے

الٰہی دے نگاہ لطف خوش چشموں کو اک پل بھی
کہ ہم بیمار مر گئے ناز اٹھاتے ان طبیبوں کے

نگیں کے طرز پھر جاتا ہے نام عزلتؔ اس لب پر
اثر میں بے سخن میرے ہیں برگشتہ نصیبوں کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse