خدا ہی اس چپ کی داد دے گا کہ تربتیں روندے ڈالتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خدا ہی اس چپ کی داد دے گا کہ تربتیں روندے ڈالتے ہیں
by شاد لکھنوی

خدا ہی اس چپ کی داد دے گا کہ تربتیں روندے ڈالتے ہیں
اجل کے مارے ہوئے کسی سے نہ بولتے ہیں نہ چالتے ہیں

ذلیل ہوتے ہیں عیب ہیں خود جو عیب اس میں نکالتے ہیں
انہیں کے اوپر ہی خاک پڑتی جو چاند پر خاک ڈالتے ہیں

تلون عیش و غم سے باہم زمین یہ ننگ آسماں ہے
کہ منہ سے ہم خون ڈالتے ہیں وہ رنگ نو روز اچھالتے ہیں

نہ گھر کے مانند ماہ ہر شب مزے اڑاتے ہیں ہمدموں سے
قرار فردا کا روز کر کے ہمیں قیامت پہ ٹالتے ہیں

پیے ہوئے ہیں شراب ساقی چڑھی ہے مستیٔ پاکبازی
وہ بادہ کش میں مدام ساقی جو دخت رز کو کھنگالتے ہیں

مدام برہم مژہ کے آرے سروں پہ چلتے ہیں عاشقوں کے
بنا کے گیسوئے مشک بو کو وہ مانگ جس دم نکالتے ہیں

جلا رہے شمع بزم سائیں اٹھا کے پہلو سے اپنے ہم کو
رقیب کو مثل دل بغل میں میان محفل بٹھالتے ہیں

کسی کو باتوں میں ہیں لگاتے کسی کو فقروں میں ہیں اڑاتے
کلیم سے ہم کلام ہو کر مسیح کو دم میں ٹالتے ہیں

بساط الفت ہے وہ نرالی جہاں میں جاں باختہ کھلاڑی
جوا بھی یہ بت جو کھیلتے ہیں تو دل کی کوڑی اچھالتے ہیں

جنوں کی بد نامیاں ہیں جتنی ہم آپ اے شادؔ اٹھا رہے ہیں
نہ تھونپے کوہ کن کے سر ہیں نہ قیس و وامق پہ ڈھالتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse