خدا کے واسطے چہرے سے ٹک نقاب اٹھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خدا کے واسطے چہرے سے ٹک نقاب اٹھا
by شاہ نصیر

خدا کے واسطے چہرے سے ٹک نقاب اٹھا
یہ درمیان سے اب پردۂ حجاب اٹھا

یہ کون بادہ پرستی ہے اے بت بد مست
اٹھا جو بزم سے تیری سو ہو کباب اٹھا

مطالعے سے ترے بیت ابروؤں کے شوخ
رکھی ہے شیخ نے اب طاق پر کتاب اٹھا

بسان نقش قدم جس نے پا تراب کیا
وہ راہ عشق میں مٹ کر غرض شتاب اٹھا

بہ چشم تر ہی کوئی دم تو بیٹھ ورنہ عبث
تو ایک دم کے لیے بحر سے حباب اٹھا

پیا ہے شیشۂ گردوں سے جس نے اک جرعہ
مثال جام وہ با دیدۂ پر آب اٹھا

نصیرؔ شور نہ کر فتنہ ہووے گا برپا
خدا نخواستہ اب گر وہ مست خواب اٹھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse