خدا پرست ہوئے ہم نہ بت پرست ہوئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خدا پرست ہوئے ہم نہ بت پرست ہوئے
by امداد علی بحر

خدا پرست ہوئے ہم نہ بت پرست ہوئے
کسی طرف نہ جھکا سر کچھ ایسے مست ہوئے

جنہیں غرور بہت تھا نماز روزے پر
گئے جو قبر میں سارے وضو شکست ہوئے

ہمارے دل میں جو وحشت نے آگ بھڑکائی
شرر بھی رہ گئے پیچھے یہ گرم جست ہوئے

جو اپنے وعدے وفا وہ کرے کرم اس کا
کہ ہم سے تو نہ وفا وعدۂ الست ہوئے

غرور کر کے نگاہوں سے گر گئے مغرور
بلند جتنے ہوئے اتنے اور پست ہوئے

رہا خمار کہ صدمے سے چور شیشۂ دل
مگر نہ سائل مے تیرے مے پرست ہوئے

لگائے خار لگیں ٹٹیاں بھی مہندی کی
رکے نہ بوئے چمن لاکھ بند و بست ہوئے

خزاں میں بھی نہ چھٹا دامن چمن ہم سے
ہوئے جو سوکھ کے کانٹا تو خار بست ہوئے

بنا ہے پنجۂ قصاب دست ظلم ان کا
سب انگلیاں ہوئیں چھریاں یہ تیز دست ہوئے

حباب سے بھی حبیبوں کے دل میں نازک تر
نظر کے بھی جو لگے ٹھیس یہ شکست ہوئے

تڑپ دکھا نہ اسے بحرؔ ماہی دل کی
غضب ہوا جو وہ تار نگاہ شست ہوئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse