ختم ہوگا اب سفر پیش نظر ہے روئے دوست

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ختم ہوگا اب سفر پیش نظر ہے روئے دوست
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

ختم ہوگا اب سفر پیش نظر ہے روئے دوست
آ رہی ہے آج کی منزل سے مجھ کو بوئے دوست

آگے آگے حسرتیں اور پیچھے پیچھے میں چلا
اس طرح گھر سے نکل کر جا رہا ہوں سوئے دوست

پہلے تو دل نے جگر کی جان ناقدری سے لی
ڈھونڈھتا پھرتا ہے عالم بھر میں اب پہلوئے دوست

واہ ری قسمت کہ گردوں پر سحر ہونے لگی
گو پڑے تھے میرے بازو پر ابھی گیسوئے دوست

خود بخود میری رگ گردن پھڑک اٹھتی ہے آج
کر رہا ہے کوئی ذکر قوت بازوئے دوست

لفظ جو دل کی طلب میں تھا وہ بالکل سحر تھا
باتوں ہی باتوں میں مجھ پر چل گیا جادوئے دوست

کوئی دیوانہ چلا ہے حشر میں اس وضع سے
چاک تا دامن گریباں منہ پہ خاک کوئے دوست

دل سے مجھ کو صاف صاف آخر یہ کہہ دینا پڑا
اب وہی سختی بھی جھیلے جو بگاڑے خوئے دوست

ہو اگر زندہ تم اے عالمؔ تو اب ہشیار ہو
کب تلک سویا کرو گے تھک گیا زانوئے دوست

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse