ختم کیا صبا نے رقص گل پہ نثار ہو چکی
Appearance
ختم کیا صبا نے رقص گل پہ نثار ہو چکی
جوش نشاط ہو چکا صوت ہزار ہو چکی
رنگ بنفشہ مٹ گیا سنبل تر نہیں رہا
صحن چمن میں زینت نقش و نگار ہو چکی
مستی لالہ اب کہاں اس کا پیالہ اب کہاں
دور طرب گزر گیا آمد یار ہو چکی
رت وہ جو تھی بدل گئی آئی بس اور نکل گئی
تھی جو ہوا میں نکہت مشک تتار ہو چکی
اب تک اسی روش پہ ہے اکبرؔ مست و بے خبر
کہہ دے کوئی عزیز من فصل بہار ہو چکی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |