خاک جینا ہے اگر موت سے ڈرنا ہے یہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خاک جینا ہے اگر موت سے ڈرنا ہے یہی
by محمد علی جوہر

خاک جینا ہے اگر موت سے ڈرنا ہے یہی
ہوس زیست ہو اس درجہ تو مرنا ہے یہی

قلزم عشق میں ہیں نفع و سلامت دونوں
اس میں ڈوبے بھی تو کیا پار اترنا ہے یہی

قید گیسو سے بھلا کون رہے گا آزاد
تیری زلفوں کا جو شانوں پہ بکھرنا ہے یہی

اے اجل تجھ سے بھی کیا خاک رہے گی امید
وعدہ کر کے جو ترا روز مکرنا ہے یہی

اور کس وضع کے جویا ہیں عروسان بہشت
ہیں کفن سرخ شہیدوں کا سنورنا ہے یہی

حد ہے پستی کی کہ پستی کو بلندی جانا
اب بھی احساس ہو اس کا تو ابھرنا ہے یہی

تجھ سے کیا صبح تلک ساتھ نبھے گا اے عمر
شب فرقت کی جو گھڑیوں کا گزرنا ہے یہی

ہو نہ مایوس کہ ہے فتح کی تقریب شکست
قلب مومن کا مری جان نکھرنا ہے یہی

نقد جاں نذر کرو سوچتے کیا ہو جوہرؔ
کام کرنے کا یہی ہے تمہیں کرنا ہے یہی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse