خانۂ زنجیر کا پابند رہتا ہوں سدا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خانۂ زنجیر کا پابند رہتا ہوں سدا
by امانت لکھنوی

خانۂ زنجیر کا پابند رہتا ہوں سدا
گھر عبث ہو پوچھتے مجھ خانماں برباد کا

عشق قد یار میں کیا ناتوانی کا ہے زور
غش مجھے آیا جو سایہ پڑ گیا شمشاد کا

خود فراموشی تمہاری غیر کے کام آ گئی
یاد رکھیے گا ذرا بھولے سے کہنا یاد کا

خط لکھا کرتے ہیں اب وہ یک قلم مجھ کو شکست
پیچ سے دل توڑتے ہیں عاشق ناشاد کا

عشق پیچاں کا چمن میں جال پھیلا دیکھ کر
بلبلوں کو سرو پر دھوکا ہوا صیاد کا

قامت جاناں سے کرتا ہے اکڑ کر ہم سری
حوصلہ دیکھے تو کوئی سرو بے بنیاد کا

بے زبانی میں امانتؔ کی وہ ہیں گل ریزیاں
ناطقہ ہو بند اے دل بلبل ناشاد کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse