خانہ بدوش

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خانہ بدوش
by مجاز لکھنوی

بستی سے تھوڑی دور چٹانوں کے درمیاں
ٹھہرا ہوا ہے خانہ بدوشوں کا کارواں
ان کی کہیں زمین نہ ان کا کہیں مکاں
پھرتے ہیں یوں ہی شام و سحر زیر آسماں
دھوپ اور ابر و بار کے مارے ہوئے غریب
یہ لوگ وہ ہیں جن کو غلامی نہیں نصیب

اس کارواں میں طفل بھی ہیں نوجواں بھی ہیں
بوڑھے بھی ہیں مریض بھی ہیں ناتواں بھی ہیں
میلے پھٹے لباس میں کچھ دیویاں بھی ہیں
سب زندگی سے تنگ بھی ہیں سرگراں بھی ہیں
بے زار زندگی سے ہیں پیر و جواں سبھی
الطاف شہر یار کے ہیں نوحہ خواں سبھی

ماتھے پہ سخت کوشئ پیہم کی داستاں
آنکھوں میں حزن و یاس کی گھنگھور بدلیاں
چہروں پہ تازیانۂ افلاس کے نشاں
ہر ہر ادا سے بھوک کی بیتابیاں عیاں
پیسہ اگر ملے تو حمیت بھی بیچ دیں
روٹی کا آسرا ہو تو عزت بھی بیچ دیں

اٹھے ہیں جس کی گود سے آذر وہ قوم ہے
توڑے ہیں جس نے چرخ سے اختر وہ قوم ہے
پلٹے ہیں جس نے دہر کے دفتر وہ قوم ہے
پیدا کئے ہیں جس نے پیمبر وہ قوم ہے
اب کیوں شریک حلقۂ نوع بشر نہیں
انسان ہی تو ہیں یہ کوئی جانور نہیں

آخر زمانہ ان کو ستائے گا کب تلک
کب سے جلا رہا ہے جلائے گا کب تلک
کب سے مٹا رہا ہے مٹائے گا کب تلک
ان کے لہو کو جوش نہ آئے گا کب تلک
مایوسیوں کی تہہ میں جنوں خیزیاں بھی ہیں
افلاس کی سرشت میں خونریزیاں بھی ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse