خانماں سوز ماسوا ہوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خانماں سوز ماسوا ہوں میں
by میر مہدی مجروح

خانماں سوز ماسوا ہوں میں
اپنے سائے سے بھی جدا ہوں میں

غور ہر چند کر رہا ہوں میں
پر یہ کھلتا نہیں کہ کیا ہوں میں

نہیں اس رہ میں دوسرے کی کھپت
آپ ہی اپنا رہ نما ہوں میں

وہ اگر آ ملیں تو کیا ہے عجب
غم سے کچھ اور ہو گیا ہوں میں

دل ہے شوق گناہ سے لبریز
دیکھنے ہی کا پارسا ہوں میں

کیوں نہ ہو دار کا وہ مستوجب
جو کہ بندہ کہے خدا ہوں میں

سوز دل کر چکا ہے جسم کو خاک
اب ترا منتظر صبا ہوں میں

ہر لب زخم تن سے میں دم قتل
کہتا قاتل کو مرحبا ہوں میں

ان سا مغرور اور پرسش حال
خواب ہے یہ جو دیکھتا ہوں میں

مجھ سا ہوگا نہ سخت جاں کوئی
کہ شب ہجر میں جیا ہوں میں

میری پرسش جو کی کسی نے تو وہ
بولے ہاں صورت آشنا ہوں میں

شارح حال دل سمجھ مجھ کو
درد ہی درد ہو گیا ہوں میں

آنکھ تک ڈالتا نہیں گاہک
کچھ عجب جنس ناروا ہوں میں

روز و شب ہے خیال کاکل و زلف
کن بلاؤں میں پھنس رہا ہوں میں

مثل نشتر ہیں خار صحرائی
اور وحشت برہنہ پا ہوں میں

کل جو میں نے کہا کہ او بے مہر
درد فرقت سے مر رہا ہوں میں

ہنس کے بولے یہ سب بناوٹ ہے
آپ کو خوب جانتا ہوں میں

دکھنے کیا زخم دل لگے مجروحؔ
ہائے ہائے جو کر رہا ہوں میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse