خانساماں شہزادہ
بمبئی کے تاج محل ہوٹل میں مہاراجہ بھاؤ نگر ٹھہرے ہوئے تھے۔ برسات کا موسم تھا۔ سمندر میں صبح شام طوفان برپا رہتا تھا اور پانی کی آوازوں سے مسافروں کی بات سننی بھی دشوار تھی۔ تاج محل ہوٹل میں ایک خانساماں ستر اسی برس کی عمر کا نوکر تھا، جو اپنے کام میں بہت ہوشیار اور تجربہ کارمانا جاتا تھا۔ ہوٹل والے اپنے بڑھیا مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے اسی خانساماں کو مقرر کرتے تھے۔ اس خانساماں کا نام قسمت بیگ تھا۔ اس کی دیانت داری بھی شہرہ آفاق تھی۔ جب سے ہوٹل میں نوکر ہوا تھا، بارہا ہوٹل کے منیجر کو اس کی امانت و دیانت کے تجربے ہوئے تھے اور وہ ہوٹل کے سب نوکروں سے زیادہ اس خانساماں پر اعتماد کرتا تھا۔ ایک دن صبح کے وقت مہاراجہ بھاؤنگر نے پلنگ پر لیٹے لیٹے قسمت بیگ سےکہا، ’’میں نے بمبئی کے چند مہمانوں کو لنچ کی دعوت دی ہے۔ منیجر سے کہہ دینا کہ دس مہمانوں کا انتظام کر دے۔‘‘ سمندر کے پانی کا غل شور، برسات کا زمانہ، مہاراجہ بھاؤ نگر کی دھیمی آواز اور بہرہ خانساماں۔ یہ حکم کیونکر اس کے کانوں تک پہنچتا، مگر قسمت بیگ کی تمیز داری کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے بہرے پن کو ظاہر نہ ہونے دیتا تھا۔ ہونٹوں کی حرکت سے مطلب سمجھ لیتا تھا۔ بہرے آدمیوں کی طرح کان جھکا کر بات نہ سنتا تھا۔ آج ایسے اسباب جمع ہوئے کہ قسمت بیگ مہاراجہ کے حکم کو نہ سمجھا اور اس نے ذرا پلنگ کےقریب آکر نہایت تذبذب اور ادب کے ساتھ ہاتھ جوڑ کر سوال کیا کہ’’وہ جو ارشاد ہوا ہے اس کی تعمیل کی جائے گی، لیکن اگر تکلیف نہ ہو تو تھوڑی سی تفصیل اور فرما دی جائے۔‘‘ مہاراجہ بھاؤ نگر بالکل نہیں سمجھے کہ خانساماں نے ان کی بات نہیں سنی تھی اور انہوں نے خانساماں سے دوبارہ کہا کہ ’’جن دس آدمیوں کو بلایا ہے وہ اعلیٰ درجہ کے لوگ ہیں۔ لنچ کا اہتمام اعلیٰ قسم کا ہونا چاہیے۔‘‘ قسمت بیگ نے بات سمجھ لی اور ادب سے کہا، ’’جو حکم، فرمان کی پوری تعمیل کی جائے گی۔‘‘ اور یہ کہہ کر بڑی تمیز داری کے ساتھ پچھلے قدم چل کر سامنے سے ہٹ گیا۔ مہاراجہ بھاؤ نگر دیر تک سوچتے رہے کہ انگریزی ہوٹلوں میں سب خانساماں انگریزی ادب آداب استعمال کرتے ہیں۔ یہ بڈھا کون ہے جو پرانے زمانے کے مشرق ی ادب آداب کو استعمال کرتا ہے۔ اس کا حال معلوم کرنا چاہیے۔ انہوں نے فوراً بٹن دبایا اور کمرے کا خدمتگار حاضر ہوگیا۔ مہاراجہ نے حکم دیا، ’’آج جب ہم لنچ سے فارغ ہوں تو ملاقات کے کمرے میں قسمت بیگ خانساماں کو بلایا جائے۔ ہم اس سے کچھ پرائیویٹ باتیں کرنی چاہتے ہیں۔‘‘ خدمت گارنے کہا، ’’حضور وہ بہت بد مزاج آدمی ہے۔ صاحب لوگوں سے ہمیشہ لڑتا رہتا ہے۔ آپ اس سے پر ائیویٹ بات کریں گے تو وہ آپ سے بھی گستاخی سے پیش آئے گا۔ وہ نوکری کے وقت تو بہت اچھا ہے اور صاحب لوگ اس کو پسند کرتے ہیں۔ لیکن پرائیویٹ وقت میں وہ بہت بدمزاج ہو جاتا ہے۔‘‘ مہاراج نے کہا، ’’ایسا کیوں ہے؟‘‘ خدمت گار نے جوا ب دیا، ’’حضور وہ کہتا ہے میں ہندوستان کا بادشاہ ہوں۔‘‘ یہ سن کر مہاراجہ کو بہت تعجب ہوا اور وہ مسکرا کر خاموش ہوگئے اور کچھ دیر کے بعد انہوں نے خدمت گار سے کہا، ’’کچھ پروا نہیں۔ قسمت بیگ سے کہہ دو کہ وہ لنچ کے بعد پرائیویٹ باتوں کے لیے ہمارے پاس آئے۔‘‘ خدمت گار نے انگریزی سلام کیا اور انگریزی طریقے سے باہر چلا گیا۔ لنچ کے بعدمہاراجہ بھاؤ نگر اور ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ اور ’’بمبئی کرانیکل‘‘ اور ’’سانجھہ ور تمان‘‘ کے ایڈیٹر اور چند ہندو اور پارسی عمائد بمبئی دوپہر کا کھانا کھا کر باتوں کے کمرے میں آئے تو مہاراج نے قسمت بیگ کو بلایا۔ قسمت بیگ نہایت ادب سےحاضر ہوا اور اس نے ہندوستانی طریقے کے موافق مہاراج کو تین فرشی سلام کیے اور ہاتھ باندھ کر ادب سے کھڑا ہو گیا۔ مہاراج نے کہا، ’’قسمت بیگ! تم کون ہو؟‘‘ قسمت بیگ دانستہ مہاراج کی کرسی کے قریب کھڑا ہوا تھا تا کہ اس کے بہرے پن کا عیب چھپا رہے اور مہاراج کی بات سن سکے۔ مہاراج کا سوال سن کر قسمت بیگ نے کہا، ’’حضورگستاخی معاف، اس کا جواب تو آپ کو بھی معلوم نہیں ہے کہ ہم سب کون ہیں اور کیوں اس دنیا میں پیدا کیے گئے ہیں۔ ہم کو بھوک، پیاس، نیند، بچپن، جوانی، بڑھاپا، تندرستی، بیماری کے انقلابات میں کس غرض سے مبتلا کیا گیا ہے۔‘‘ قسمت بیگ کی یہ عجیب تقریر سن کر سب حاضر ین مبہوت ہوگئے اور حیرت سے دیکھنے لگے کہ ایک خانساماں یہ کیسی فلسفیانہ باتیں کر رہا ہے۔ مہاراج نے مسکرا کر کہا، ’’بے شک ہم کو اس سوال کا جواب معلوم نہیں ہے، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ تم نے زندگی کی ان مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کیونکہ تم نے ایک سانس میں سب بڑے بڑے انقلابات کا ذکر کر دیا۔ اس واسطے میرا خیال ہے کہ تم میرے سوال کا جواب دے سکتے ہو۔‘‘ قسمت بیگ نے کہا، ’’حضور میں ایک آدمی ہوں۔ نسل کے لحاظ سے تیموری مغل ہوں۔ پیشے کے لحاظ سے تاج محل ہوٹل کا خانساماں ہوں۔ عمر کے لحاظ سے بڈھا ہوں۔ طبیعت کے اعتبار سے کبھی بچہ ہوتا ہوں اور کبھی جوان۔ اخلاقی حیثیت میری ایک کامل انسان کی ہے۔ جھوٹ نہیں بولتا۔ چوری نہیں کرتا۔ ظلم اور بے رحمی سے بچتا ہوں۔ خدمت خلق کو اپنا مقصد زندگی مانتا ہوں۔ اگر چہ گدا ہوں لیکن دل کے تخت پر شہنشاہ ہوں۔ کچھ ارشاد ہو تو اس کا بھی جواب دوں۔‘‘ قسمت بیگ کی مؤثر اور برجستہ تقریر کا ایک دوسرا اثر پیدا ہوا اور مہاراج اپنے مہمانوں سمیت پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور بے اختیار مہاراج کی زبان سے نکلا، ’’کیا تم تیموری شہزادے ہو؟‘‘ قسمت بیگ کو جوش آگیا اور اس نے کہا، ’’شاہ زادہ نہیں ہوں آہ زادہ ہوں۔ دنیا کی مصیبتوں کی سب زدیں میں نے اٹھائی ہیں۔ تیموری خاندان تو اب مٹ چکا ہے، جس نے باوجود انسان ہونے کے دوسرے انسانوں کو غلام بنانے کی کوشش کی تھی اور غلام بنا لیا تھا۔ آپ نہیں تو آپ کے باپ دادا بھی اس کے غلام تھے۔ یہ سوال فضول ہے اور آپ کے لیے تکلیف دہ ہے اور میں اس سوال کی کشمکش میں پڑنا اپنے دل کے لیے ایک آری سمجھتا ہوں جو میرے دل کو چیر رہی ہے۔‘‘ یہ فقرہ سن کر مہاراج نے سرجھکا لیا اور سب لوگ خاموش ہو کر زمین کی طرف دیکھنے لگے۔ آخر کچھ دیر کے بعد خود قسمت بیگ نے کہا، ’’انسان کو اپنی موجودہ حیثیت دیکھنی چاہئے۔ آج چونکہ میں ایک خانساماں ہوں، اس لیے ارشاد کی تعمیل کرتا ہوں۔ میں سمجھ گیا کہ حضور میری زندگی کی تفصیل معلوم کرنی چاہتے ہیں۔ میں ان لوگوں میں نہیں ہوں جو ماضی پر فخر کریں یا افسوس کریں اور میں ان لوگوں میں بھی نہیں ہوں جو مستقبل کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہتے ہیں۔ حضور میں ماضی کا مالک ہوں۔ حال کا مالک ہوں اور مستقبل کا بھی مالک ہوں۔ یہ آسمان بھی میرا ہے۔ یہ زمین بھی میری ہے۔ یہ سمندر بھی میرا ہے اور آپ سب لوگ جوکرسیوں پر میرے سامنے بیٹھے ہیں، آپ بھی میرے ہیں اور میں خود جو آپ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہوں، محسوس کرتا ہوں کہ یہ وجود بھی میرا ہے۔ دنیا کی کوئی چیز بھی میرے سوا اور کسی کی نہیں ہے۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ دوسرا کوئی موجود نہیں ہے۔ میں ہی ہوں، میں ہی تھا۔ میں ہی آخر تک رہوں گا۔ یہ سمندر ابل رہا ہے۔ بل کھا رہا ہے۔ جوش میں آرہا ہے۔ برسات ختم ہوگی، سردی آئے گی، ٹھنڈا ہو جائے گا۔ تالاب بن جائے گا۔ اس کے اندر طوفان بھی میں ہی ہوں اور اس کی ٹھنڈک بھی میں ہی ہوں۔‘‘ قسمت بیگ کی مجذوبانہ تقریر سنتے سنتے مہاراج کو ہنسی آگئی، مگر انہوں نے ہنسی کوضبط کیا اور کہا، ’’شہزادہ صاحب!کیا آپ میرا حکم مانیں گے اور سامنے کی کرسی پر بیٹھنے کی تکلیف گوارا کریں گے۔‘‘ قسمت بیگ نے کہا، ’’ہرگز نہیں، کالج میں استاد کھڑا رہتا ہے اور شاگرد بیٹھے رہتے ہیں۔ تم شاگرد ہو اور میں استاد ہوں۔ تم سب انجان ہو اور میں دانا ہوں۔ تم سب بے خبر ہو اور میں خبردار ہوں۔ تم سب غافل ہو اور میں ہوشیار ہوں۔ تم سب ادنیٰ ہو اور میں اعلیٰ ہوں۔ تم سب بڑے ہو اور میں چھوٹا ہوں۔ تم سب امیر ہو اور میں غریب ہوں۔ تم سب فانی ہو اور میں باقی ہوں۔ تم سب بلبلا ہو اور میں پانی ہوں۔ تم سب خاک ہو اور میں ہوا ہوں۔ تم سب ایندھن ہو اور میں آگ ہوں۔ تم سب تاریکی ہو اور میں روشنی ہوں۔‘‘ یہ کہتے کہتے قسمت بیگ نے اپنی دونوں مونچھوں کو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے پکڑا اور ان کو مروڑا اور اچھلنا شروع کیا۔ اچھلتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا، ’’میں ہوں میں۔ تم نہیں ہو۔ میں ہوں میں۔ میں ہوں میں۔ جو کچھ ہے، جو کچھ تھا، جو کچھ ہو۔ کچھ نہیں ہے۔ کچھ نہیں ہے۔ میں ہوں میں۔ میں ہوں میں۔ پھر سنو پھر کہوں۔ میں ہوں میں۔ میں ہوں میں۔‘‘ مہاراج اور حاضرین کے جسموں پر رعشہ پڑ گیا اور ان سب پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہوگئی۔ قسمت بیگ کی دیوانہ وار باتوں اور اچھل کود سے غیر معمولی اثر ہوا۔ کچھ دیر کے بعد قسمت بیگ، مہاراج کے قریب خاموش ہوکر کھڑا ہو گیا اور اس نے نہایت ناتواں آواز میں کہا، ’’حضور سواری چلی گئی۔ میں ایک مرکب تھا اور سوار میرا اور تھا۔ میں ایک ہوٹل تھا اور مہمان کوئی اور تھا۔ میں ایک بوتل تھا اور شراب کوئی اور تھی۔ اب سنئے مجھ بیمارلاچار خانساماں کی کہانی، سنیے، بہادر شاہ بادشاہ کا بیٹا ہوں۔ میری ماں لونڈی تھی اور بادشاہ کی معتو ب تھی جب غدر ۱۸۵۷ء کا انقلاب ہوا تو میری عمر دس سال کی تھی۔ بادشاہ نے گھبراہٹ کے وقت اپنے بیوی بچوں کا انتظام بہت ادھورا کیا تھا اور اس وقت میرا اور میری ماں کا شاید ان کو خیال بھی نہ آیا ہو گا کیونکہ میری ماں لال قلعہ کے باہر خاص بازار میں ایک مکان میں رہتی تھیں۔ مکان شاہی تھا۔ پہرے دار اور نوکر بھی بادشاہ کی طرف سے تھے۔ خرچ بھی ملتا تھا، مگر بادشا ہ میری پیدائش سے پہلے میری اماں سے خفا ہوگئے تھے اور انہوں نے کبھی میری صورت نہیں دیکھی، نہ میری اماں کو قلعہ میں بلایا۔ جب دہلی کے سب باشندے بھاگے اور ولسن صاحب کمانڈر کشمیری دروازہ کے راستے شہر میں داخل ہوئے تو میری ماں نے مجھ کو اپنے ساتھ لیا اور پیدل گھر سے روانہ ہوئیں۔ نوکر پہلے ہی بھاگ گئے تھے۔ سواری کا کوئی انتظام نہ تھا۔ میری والدہ نے سواشرفیاں اپنے ساتھ لیں اور کوئی سامان نہ لیا۔ دہلی سے نکل کر ہم دونوں قد م شریف کی درگاہ میں گئے جو دہلی کی فصیل سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ہے۔ مگر یہ راستہ بھی ہم کو کئی کوس کا معلوم ہوا، کیونکہ نہ مجھے پیدل چلنے کی عادت تھی نہ میری ماں کو۔ مجھے یاد ہے دہلی کے باشندے ایسی گھبراہٹ میں جا رہے تھے گویا قیامت قائم ہے اور سب نفسی نفسی کہتے ہوئے خدا کے پاس جا رہے ہیں۔ عورتیں کپڑوں کی بقچیاں سروں پر رکھے ہوئے، چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھ پکڑے جا رہی تھیں۔ بچے رو رہے تھے۔ وہ ان کو کھینچتی تھیں اور بچے چل نہ سکتے تھے۔ مردوں کا بھی یہی حال تھا۔ کوئی کسی کا پرسان حال نہ تھا۔ سب اپنی مصیبت میں مبتلا تھے۔ قدم شریف میں جاکر ہم ایک ٹوٹے مکان میں بیٹھ گئے۔ برسات کا موسم تھا۔ رات ہوئی۔ مجھے بھوک لگی مگر وہاں کچھ کھانے کو نہ تھا۔ میری ماں نے اپنی گود میں بٹھا لیا اور تسلی دلاسے کی باتیں کرنے لگیں۔ شہر سے بندوقوں کی آوازیں اور شہر والوں کا غل شور سن سن کر میں گھبرایا جاتا تھا اور میری والدہ بھی سہمی بیٹھی تھیں، یہاں تک کہ اسی بھوک کی حالت میں سو گیا۔ صبح ہندوستانی فوج کے سپاہی قدم شریف میں آئے اور انہوں نے لوگوں کو پکڑنا شرو ع کیا۔ میری ماں کو بھی گرفتار کر لیا اور ایک پوربیہ ہندوان کو اپنے ساتھ پہاڑی پر لے گیا جو قدم شریف سے کئی میل دور تھی اورہم دونوں جب پہاڑی پر پہنچے تو ہمارے پاؤں خونم خون ہوگئے تھے۔ شام کو ہمیں انگریز افسر کے سامنے پیش کیا گیا اور اس نے میری ماں سے کچھ سوالات کیے۔ مجھے یاد نہیں انگریز نے کیا کہا اور میری ماں نے کیا جواب دیا۔ اتنا یاد ہے کہ انگریز کو میری ماں نے بتا دیا کہ وہ بادشاہ کی لونڈی ہے اور بچہ بادشاہ کا بیٹا ہے اور انگریز نے حکم دیا کہ ان دونوں کو آرام سے رکھا جائے۔ آرام یہ تھا کہ ہم کو ایک چھوٹا سا خیمہ دے دیا گیا جس میں ہم رات دن پڑے رہتے تھے اور دو وقت کھانا ہم کو مل جاتا تھا۔ جب دہلی میں انگریزی انتظام ہوگیا تو ہم دونوں کو چاندنی محل میں، جو جامع مسجد کے قریب ایک محلہ تھا، بھجوا دیا گیا، جہاں ہمارے خاندان کے اور لوگ بھی آباد ہوگئے تھے۔ میری والدہ کے نام دس روپے ماہوار گذارے کے مقرر کر دیے گئے اور میں نے اپنی والدہ کے ساتھ بچپن سے جوانی تک جیسی جیسی مصیبتیں اٹھائیں، بس میرا ہی دل جانتا ہے۔ چاند نی محل کے قریب ایک خانقاہ تھی اور میں وہاں اکثر جایا کرتا تھا۔ خانقاہ میں ایک درویش رہتے تھے۔ ان کی باتیں سنتا تھا اور ان کا مجھ پر بہت اثر ہوتا تھا۔ انہی کی باتوں سے مجھے اپنی اور کائنات کی ہر چیز کی حقیقت کا علم ہوا اور اس وقت جو کچھ میں عرض کر رہا تھا، یہ بھی انہیں کی صحبت کا اثر ہے۔ والدہ نے خاندان ہی کے اندر میری شادی بھی کردی۔ اولاد بھی ہوئی مگر وہ زندہ نہیں رہی۔ میں نے دہلی میں ایک خانساماں کی شاگردی اختیار کی اور یہ کام سیکھا جواب کر رہا ہوں اور جب میری والدہ اور بیوی کا انتقال ہو گیا تو میں دہلی سے بمبئی چلا آیا اور یہاں مختلف لوگوں کی نوکریا ں کیں۔ ہوٹلوں میں بھی رہا اور اب مدت سے تاج محل ہوٹل میں ہوں۔ بچپن سے میرے کان میں کچھ خرابی ہوگئی جو آج تک باقی ہے، مگر میں کوشش کرتا ہوں کہ کوئی میرے بہرے پن کو سمجھ نہ سکے کیونکہ مجھے اس عیب سے بہت شرم آتی ہے۔ خانساماں کی یہ بات سن کر مہاراج نے ایک ٹھنڈا سانس لیا اور کہا، ’’قسمت بیگ نا م کس نے رکھا؟‘‘ خانساماں نے کہا، ’’میری قسمت نے، ورنہ میری ماں نے تو میرا نام تیمور شاہ رکھا تھا، مگر جب میں دہلی سے بمبئی آیا تو ہر شخص کو میں نے اپنا نام قسمت بیگ بتایا۔‘‘ مہاراج نے کہا چلو میں تم کو بھاؤ نگر لے چلوں۔ جو تنخواہ یہاں ملتی ہے اس سے دگنی تنخواہ دوں گا اور تمہاری باتیں سنا کروں گا۔ کوئی کام نہیں لوں گا۔‘‘ یہ بات سن کر قسمت بیگ نے جھک کر تین فرشی سلام مہاراج کو کیے۔ پھر کہا، ’’یہ عین بندہ نوازی ہے، لیکن جس نے اس دنیا کے انقلاب کو سمجھ لیا وہ قناعت کے دروازے پر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک دروازے کو پکڑ اور مضبوط پکڑ، دربدر بھٹکتا نہ پھر۔ اس ہوٹل میں میری عزت بھی ہے اور میری مزاج داری بھی ہے۔ صاحب لوگ بھی میری بد مزاجیوں کو برداشت کر لیتے ہیں۔ ضرورت کے موافق ہر چیز موجود ہے۔ آپ ہی فرمایئے میں آپ کے ارشاد کی تعمیل کیوں کروں اور ایک جگہ کو چھوڑ کر جہاں کوئی تکلیف نہیں ہے، آپ کے ہاں کیوں آؤں۔‘‘ مہاراج نے آفریں کہی اور ایک ہزار روپے کا چک لکھ کر دیا۔ کہا کہ اس کو اپنے خرچ میں لانا، آئندہ بھی ہر سال ہوٹل کے منیجر کی معرفت ہزار روپے تم کو مل جایا کریں گے۔ قسمت بیگ نے پھر سلام کیا اور چک لے کر رونے لگا اور پچھلے قدم ہٹ کر باہر چلا آیا۔ معلوم نہیں اس کو رونا کیوں آیا اور اسے کیا بات یاد آگئی۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |