خاندان قیس کا میں تو سدا سے پیر ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خاندان قیس کا میں تو سدا سے پیر ہوں
by شاہ نصیر

خاندان قیس کا میں تو سدا سے پیر ہوں
سلسلہ جنبان شور خانۂ زنجیر ہوں

خاکساری کے ابھی تو درپئے تدبیر ہوں
کشتہ ہو کر خاک جب ہوں تب کبھی اکسیر ہوں

ضعف نے گو کر دیا ہے جوں کماں گوشہ نشیں
اب بھی چلنے کو جو پوچھو تو سراسر تیر ہوں

رشتۂ الفت نے باندھے ہیں پر پرواز آہ
دام حیرت میں برنگ بلبل تصویر ہوں

تجھ سے یہ عقدہ کھلے گا اے نسیم صبح دم
غنچے کی مانند اس گلشن میں کیوں دلگیر ہوں

منتظر چشم رکاب اے صید افگن ہے ہنوز
بوسۂ فتراک کی خواہش ہے وہ نخچیر ہوں

فقر کی دولت کے آگے سلطنت کیا مال ہے
بسترے پر اپنے اے روبہ مزاجو شیر ہوں

سچ ہے اپنے دم سے قائم ہے یہ بنیاد جہاں
رونق افزائے چمن آرایش تعمیر ہوں

جیسی چاہے ویسی لے مجھ سے قسم قاتل نہ ڈر
حشر کو بھی گر کبھی تیرا میں دامن گیر ہوں

اہل جوہر ہی مرے مضموں کو سمجھے ہے نصیرؔ
میں بھی اقلیم سخن میں صاحب شمشیر ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse