خاموش ہیں لب اور آنکھوں سے آنسو ہیں کہ پیہم بہتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خاموش ہیں لب اور آنکھوں سے آنسو ہیں کہ پیہم بہتے ہیں
by جلال الدین اکبر

خاموش ہیں لب اور آنکھوں سے آنسو ہیں کہ پیہم بہتے ہیں
ہم سامنے ان کے بیٹھے ہیں اور قصۂ فرقت کہتے ہیں

اب حسن و عشق میں فرق نہیں اب دونوں کی اک حالت ہے
میں ان کو دیکھتا رہتا ہوں وہ مجھ کو دیکھتے رہتے ہیں

ان کی وہ حیا وہ خاموشی اپنی وہ محبت کی نظریں
وہ سننے کو سب کچھ سنتے ہیں ہم کہنے کو سب کچھ کہتے ہیں

اس شوق فراواں کی یا رب آخر کوئی حد بھی ہے کہ نہیں
انکار کریں وہ یا وعدہ ہم راستہ دیکھتے رہتے ہیں

ہمدرد نہیں ہم راز نہیں کس سے کہئے کیوں کر کہئے
جو دل پہ گزرتی رہتی ہے جو جان پہ صدمے سہتے ہیں

آ دیکھ کہ ظالم فرقت میں کیا حال مرا بے حال ہوا
آہوں سے شرارے جھڑتے ہیں آنکھوں سے دریا بہتے ہیں

اکبرؔ شاید دل کھو بیٹھے وہ جلسے وہ احباب نہیں
تنہا خاموش سے پھرتے ہیں ہر وقت اداس سے رہتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse