خاموش داب عشق کو بلبل لیے ہوئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خاموش داب عشق کو بلبل لیے ہوئے
by رند لکھنوی

خاموش داب عشق کو بلبل لیے ہوئے
گل مست ہے چمن میں پیالہ پیے ہوئے

امسال فصل گل میں وہ پھر چاک ہو گئے
اگلے برس کے تھے جو گریباں سیے ہوئے

ہم بھی ہوا میں اک گل نوخیز حسن کے
برسوں پھرے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے

دوکانیں مے فروشوں کی کب سے پڑی ہیں بند
رہ رہ گئے ہیں قفل دیے کے دیے ہوئے

عشق صنم ہے اس میں ہیں خودداریاں ضرور
اے دل خدا کے واسطے خود کو لیے ہوئے

مرشد ہے عشق ہم ہیں مرید اس جناب کے
برسوں گزر گئے ہیں پیالہ پیے ہوئے

وہ آ کے مسکرائے اس انداز و ناز سے
کھل کھل گئے جو زخم جگر تھے سیے ہوئے

روز ازل سے دخل وجود و عدم میں ہے
دونوں علاقے ہیں یہ ہمارے لیے ہوئے

ہیں بت پرست دیر میں حاجی ہیں کعبہ میں
طالب رضائے دوست کے دھرنے دیے ہوئے

میدان امتحاں میں ہمیں بھیج دیجیے
کہیے انہیں یہ کام ہیں جن کے کیے ہوئے

نامرد اپنے وادی میں رکھے گا کیا قدم
سر ہو مہم عشق نہ بے سر دیے ہوئے

کس کس طرح کا بھیس بدل کر پہنچتے ہیں
عاشق ہوئے نہ آپ کے بہروپئے ہوئے

حاصل ہوا بتوں سے نہ عاشق کو مدعا
روشن کبھی نہ دیر میں گھی کے دیے ہوئے

تعویذ و نقش کچھ نہیں کرتے اثر وہاں
سارے یہ کھٹکھٹے ہیں ہمارے کئے ہوئے

اک شب ہوئی نصیب سلیماں نہ جو پری
ہم روز سوئے اس کو بغل میں لیے ہوئے

آنکھوں میں پھرتی ہیں جو وہ آنکھیں نشیلیاں
دو بوتلوں کی مستی ہے بے مے پیے ہوئے

باندھا جو چست چست مضامین نو کے ساتھ
بندش سے میری تنگ بہت قافیے ہوئے

عاشق مزاج روتے ہیں پڑھ پڑھ کے بیشتر
اشعار رندؔ کے نہ ہوئے مرثیے ہوئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse