Jump to content

خالی عاشق سے کبھی کوچۂ جاناں نہ رہا

From Wikisource
خالی عاشق سے کبھی کوچۂ جاناں نہ رہا
by جمیلہ خدا بخش
317417خالی عاشق سے کبھی کوچۂ جاناں نہ رہاجمیلہ خدا بخش

خالی عاشق سے کبھی کوچۂ جاناں نہ رہا
کون سی شب وہ تھی جس میں کوئی گریاں نہ رہا

دیکھیے ناخن وحشت کے سبب عاشق کا
تار داماں نہ رہا تار گریباں نہ رہا

شیخ کیا وعظ سناتا ہے دکھانے کے لیے
دل میں تصویر صنم ہے ترا ایماں نہ رہا

ہو گیا ساتھ دل زار کے وہ بھی رخصت
مایۂ زیست جو اپنا تھا وہ ارماں نہ رہا

ہم صفیرو نہ کہو نغمہ زنی کو مجھ سے
اب چلی باد خزاں اور گل خنداں نہ رہا

رخ دکھاتے ہی کیا محو تماشا تو نے
کب ترا شیفتہ آئینہ سا حیراں نہ رہا

اشک دیدہ تو ہوئے خشک جمیلہؔ کہہ دو
خضر تم آئے تو کیا چشمۂ حیواں نہ رہا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.