Jump to content

خالی بوتلیں، خالی ڈبے (افسانہ)

From Wikisource
خالی بوتلیں، خالی ڈبے (1950)
by سعادت حسن منٹو
324940خالی بوتلیں، خالی ڈبے1950سعادت حسن منٹو

یہ حیرت مجھے اب بھی ہے کہ خاص طور پر خالی بوتلوں اور ڈبوں سے، مجرد مردوں کو اتنی دلچسپی کیوں ہوتی ہے؟ مجرد مردوں سے میری مراد ان مردوں سے ہے جن کو عام طور پر شادی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

یوں تو اس قسم کے مرد عموماً سنکی اور عجیب و غریب عادات کے مالک ہوتے ہیں، لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ انھیں خالی بوتلوں اور ڈبوں سے کیوں اتنا پیار ہوتا ہے؟ پرندے اور جانور اکثر ان لوگوں کے پالتو ہوتے ہیں۔ یہ میلان سمجھ میں آسکتا ہے کہ تنہائی میں ان کا کوئی تو مونس ہونا چاہیے، لیکن خالی بوتلیں اور خالی ڈبے ان کی کیا غمگساری کرسکتے ہیں؟

سنک اور عجیب و غریب عادات کا جواز ڈھونڈنا کوئی مشکل نہیں کہ فطرت کی خلاف ورزی ایسے بگاڑ پیدا کرسکتی ہے، لیکن اس کی نفسیاتی باریکیوں میں جانا البتہ بہت مشکل ہے۔

میرے ایک عزیز ہیں۔ عمر آپ کی اس وقت پچاس کے قریب قریب ہے آپ کو کبوتر اور کتے پالنے کا شوق ہے اور اس میں کوئی عجیب و غریب پن نہیں لیکن آپ کو یہ مرض ہے کہ بازار سے ہر روز دودھ کی بالائی خرید کر لاتے ہیں۔ چولھے پر رکھ کر اس کا روغن نکالتے ہیں اور اس روغن میں اپنے لیے علیحدہ سالن تیار کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح خالص گھی تیار ہوتا ہے۔

پانی پینے کے لیے اپنا گھڑا الگ رکھتے ہیں۔ اس کے منہ پر ہمیشہ ململ کا ٹکڑا بندھا رہتاہے تاکہ کوئی کیڑا مکوڑا اندر نہ چلا جائے، مگر ہوا برابر داخل ہوتی رہے۔ پاخانے جاتے وقت سب کپڑے اتار کر ایک چھوٹا سا تولیہ باندھ لیتے ہیں اور لکڑی کی کھڑاؤں پہن لیتے ہیں۔۔۔ اب کون ان کی بالائی کے روغن، گھڑے کی ململ، انگ کے تولیے اور لکڑی کی کھڑاؤں کے نفسیاتی عقدے کو حل کرنے بیٹھے۔

میرے ایک مجرو دوست ہیں۔ بظاہر بڑے ہی نورمل انسان۔ ہائی کورٹ میں ریڈر ہیں۔ آپ کو ہر جگہ سے ہر وقت بدبو آتی رہتی ہے۔ چنانچہ ان کا رومال سدا ان کی ناک سے چپکا رہتا ہے۔۔۔ آپ کو خرگوش پالنے کا شوق ہے۔

ایک اور مجرد ہیں۔ آپ کو جب موقعہ ملے تو نماز پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود آپ کا دماغ بالکل صحیح ہے۔ سیاسیاتِ عالم پر آپ کی نظر بہت وسیع ہے۔ طوطوں کو باتیں سکھانے میں مہارت تامہ رکھتے ہیں۔

ملٹری کے ایک میجر ہیں۔ سن رسیدہ اور دولت مند۔ آپ کو حُقّے جمع کرنے کا شوق ہے۔ گڑگڑیاں، پیچواں، چموڑے، غرضیکہ ہر قسم کا حقہ ان کے پاس موجود ہے۔ آپ کئی مکانوں کے مالک ہیں، مگر ہوٹل میں ایک کمرہ کرائے پر لے کررہتے ہیں۔ بٹیریں آپ کی جان ہیں۔

ایک کرنل صاحب ہیں۔ ریٹائرڈ۔ بہت بڑی کوٹھی میں اکیلے دس بارہ چھوٹے بڑے کتوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ہر برانڈ کی وسکی ان کے یہاں موجود رہتی ہے۔ ہر روز شام کو چار پیگ پیتے ہیں اور اپنے ساتھ کسی نہ کسی لاڈلے کتے کو بھی پلاتے ہیں۔

میں نے اب تک جتنے مجردوں کا ذکر کیا ہے، ان سب کو حسبِ توفیق خالی بوتلوں اور ڈبوں سے دلچسپی ہے۔ میرے، دودھ کی بالائی سے خالص گھی تیار کرنے والے عزیز، گھر میں جب بھی کوئی خالی بوتل دیکھیں تو اسے دھو دھا کر اپنی الماری میں سجا دیتے ہیں کہ ضررت کے وقت کام آئے گی۔ ہائی کورٹ کے ریڈر جن کو ہر جگہ سے ہر وقت بدبو آتی رہتی ہے صرف ایسی بوتلیں اور ڈبے جمع کرتے ہیں، جن کے متعلق وہ اپنا پورا اطمینان کرلیں کہ اب ان سے بدبو آنے کا کوئی احتمال نہیں رہا۔ جب موقعہ ملے، نماز پڑھنے والے، خالی بوتلیں آب دست کے لیے اور ٹین کے خالی ڈبے وضو کے لیے درجنوں کی تعداد میں جمع رکھتے ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق یہ دونوں چیزیں سستی اور پاکیزہ رہتی ہیں۔۔۔ قسم قسم کے حقے جمع کرنے والے میجر صاحب کو خالی بوتلیں اور خالی ڈبے جمع کرکے ان کو بیچنے کا شوق ہے اور ریٹائرڈ کرنل صاحب کو صرف وسکی کی بوتلیں جمع کرنے کا۔

آپ کرنل صاحب کے ہاں جائیں تو ایک چھوٹے،صاف ستھرے کمرے میں کئی شیشے کی الماریوں میں آپ کو وسکی کی خالی بوتلیں سجی ہوئی نظر آئیں گی۔ پرانے سے پرانے برانڈ کی وسکی کی خالی بوتل بھی آپ کو ان کے اس نادر مجموعے میں مل جائے گی۔ جس طرح لوگوں کو ٹکٹ اور سکے جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے، اسی طرح ان کو وسکی کی خالی بوتلیں جمع کرنے اور ان کی نمائش کرنے کا شوق بلکہ خبط ہے۔

کرنل صاحب کا کوئی عزیز، رشتہ دار نہیں۔ کوئی ہے تو اس کا مجھے علم نہیں۔ دنیا میں تن تنہاہیں۔ لیکن وہ تنہائی بالکل محسوس نہیں کرتے۔۔۔ دس بارہ کتے ہیں ان کی دیکھ بھال وہ اس طرح کرتے ہیں جس طرح شفیق باپ اپنی اولاد کی کرتے ہیں۔ سارا دن ان کا ان پالتو حیوانوں کے ساتھ گزر جاتا ہے۔ فرصت کے وقت وہ الماریوں میں اپنی چہیتی بوتلیں سنوارتے رہتے ہیں۔

آپ پوچھیں گے، خالی بوتلیں تو ہوئیں۔ یہ تم نے خالی ڈبے کیوں ساتھ لگا دیے۔۔۔ کیا یہ ضروری ہے کہ تجرو پسند مردوں کو خالی بوتلوں کے ساتھ ساتھ خالی ڈبوں کے ساتھ بھی دلچسپی ہو۔۔۔؟ اور پھر ڈبے اور بوتلیں، صرف خالی کیوں؟ بھری ہوئی کیوں نہیں۔۔۔؟ میں آپ سے شاید پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ مجھے خود اس بات کی حیرت ہے۔ یہ اور اسی قسم کے اور بہت سے سوال اکثر میرے دماغ میں پیدا ہو چکے ہیں۔ باوجود کوشش کے میں ان کا جواب حاصل نہیں کرسکتا۔

خالی بوتلیں اور خالی ڈبے، خلا کا نشان ہیں اور خلا کا کوئی منطقی جوڑ تجرو پسند مردوں سے غالباً یہی ہو سکتا ہے کہ خود ان کی زندگی میں ایک خلا ہوتا ہے، لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا وہ اس خلا کو ایک اور خلا سے پُر کرتے ہیں۔۔۔؟ کتوں بلیوں خرگوشوں اور بندروں کے متعلق آدمی سمجھ سکتا ہےکہ وہ خالی خولی زندگی کی کمی ایک حد تک پوری کرسکتے ہیں کہ وہ دل بہلا سکتے ہیں، ناز نخرے کرسکتے ہیں۔ دل چسپ حرکات کے موجب ہو سکتے ہیں،پیار کا جواب بھی دے سکتے ہیں لیکن خالی بوتلیں اور ڈبے دلچسپی کا کیا سامان بہم پہنچاتے ہیں؟

بہت ممکن ہے آپ کو ذیل کے واقعات میں ان سوالوں کا جواب مل جائے۔

دس برس پہلے میں جب بمبئی گیا تو وہاں ایک مشہور فلم کمپنی کا ایک فلم تقریباً بیس ہفتوں سے چل رہا تھا۔۔۔ ہیروئن پرانی تھی، لیکن ہیرو نیا تھا جو اشتہاروں میں چھپی ہوئی تصویروں میں نوخیز دکھائی دیتا تھا۔۔۔اخباروں میں اس کی کردار نگاری کی تعریف پڑھی تو میں نے یہ فلم دیکھا۔ اچھا خاصا تھا۔ کہانی جاذب توجہ تھی اور اس نئے ہیرو کا کام بھی اس لحاظ سے قابل تعریف تھا کہ اس نے پہلی مرتبہ کیمرے کا سامنا کیا تھا۔

پردے پر کسی ایکٹر یا ایکٹرس کی عمر کا اندازہ لگانا عام طور پر مشکل ہوتا ہے۔کیونکہ میک اپ جوان کو بوڑھا اور بوڑھے کو جوان بنا دیتا ہے، مگر یہ نیا ہیرو بلاشبہ نوخیز تھا۔۔۔ کالج کے طالب علم کی طرح تروتازہ اور چاق و چوبند۔۔۔ خوبصورت تو نہیں تھا مگر اس کے گٹھے ہوئے جسم کا ہر عضو اپنی جگہ پر مناسب و موزوں تھا۔

اس فلم کے بعد اس ایکٹر کے میں نے اور کئی فلم دیکھے۔۔۔ اب وہ منجھ گیا تھا۔ چہرے کے خط و خال کی طفلانہ نرمائش، عمر اور تجربے کی سختی میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اس کا شمار اب چوٹی کے اداکاروں میں ہونے لگا تھا۔

فلمی دنیا میں اسکینڈل عام ہوتے ہیں۔ آئے دن سننے میں آتا ہے کہ فلاں ایکٹر کا فلاں ایکٹرس سے تعلق ہوگیا ہے۔ فلاں ایکٹرس، فلاں ایکٹر کو چھوڑ کر فلاں ڈائریکٹر کے پہلو میں چلی گئی ہے۔ قریب قریب ہر ایکٹر اور ہر ایکٹرس کے ساتھ کوئی نہ کوئی رومان جلد یا بدیر وابستہ ہو جاتا ہے، لیکن اس نئے ہیرو کی زندگی جس کا میں ذکرکررہا ہوں ان بکھیڑوں سے پاک تھی، مگر اخباروں میں اس کا چرچا نہیں تھا۔ کسی نے بھولے سے حیرت کا بھی اظہار نہیں کیا تھا کہ فلمی دنیا میں رہ کر رام سروپ کی زندگی جنسی آلائشوں سے پاک ہے۔

میں نے سچ پوچھئے تو اس بارے میں کبھی غور ہی نہیں کیا تھا۔ اس لیے کہ مجھے ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی نجی زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ فلم دیکھا۔ اس کے متعلق اچھی یا بری رائے قائم کی اور بس۔۔۔ لیکن جب رام سروپ سے میری ملاقات ہوئی تو مجھے اس کےمتعلق بہت سی دلچسپ باتیں معلوم ہوئیں۔۔۔ یہ ملاقات اس کا پہلا فلم دیکھنے کے تقریباً آٹھ برس بعد ہوئی۔

شروع شروع میں تو وہ بمبئی سے بہت دور ایک گاؤں میں رہتا تھا، مگر اب فلمی سرگرمیاں بڑھ جانے کے باعث اس نے شیواجی پارک میں سمندر کے کنارے ایک متوسط درجے کا فلیٹ لے رکھا تھا۔ اس سے میری ملاقات اسی فلیٹ میں ہوئی جس کے چار کمرے تھے، باورچی خانے سمیت۔اس فلیٹ میں جو کنبہ رہتا تھا۔ اس کے آٹھ افراد تھے۔ خود رام سروپ۔ اس کا نوکر جو باورچی بھی تھا۔ تین کتے۔ دو بندر اور ایک بلی۔ رام سروپ اور اس کا نوکر مجرد تھے۔ تین کتوں اور ایک بلی کے مقابلے میں ان کی مخالف جنس نہیں تھی۔۔۔ ایک بندر تھا اور ایک بندریا۔ دونوں اکثر اوقات ایک جالی دار پنجرے میں بند رہتے تھے۔

ان نصف درجن حیوانوں کے ساتھ رام سروپ کو والہانہ محبت تھی۔ نوکر کے ساتھ بھی اس کا سلوک بہت اچھا تھا مگر اس میں جذبات کا دخل بہت کم تھا۔ بندھے کام تھے جو مقررہ وقت پر مشین کی سی بے روح باقاعدگی کے ساتھ گویا خود بخود ہو جاتے تھے۔ اس کے علاوہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ رام سروپ نے اپنے نوکر کو اپنی زندگی کے تمام قواعد و ضوابط ایک پرچے پر لکھ کر دے دیے تھے جو اس نے حفظ کرلیے تھے۔اگر رام سروپ کپڑے اتار کر،نیکر پہننے لگے تو اس کا نوکر فوراً تین چار سوڈے اور برف کی فلاسک، شیشے والی تپائی پر رکھ دیتا تھا۔۔۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ صاحب رَم پی کر اپنے کتوں کے ساتھ کھیلیں گے اور جب کسی کا ٹیلی فون آئے گا تو کہہ دیا جائےگا کہ صاحب گھر پرنہیں ہیں۔

رم کی بوتل یا سگریٹ کا ڈبہ جب خالی ہو گا تو اسے پھینکا یا بیچا نہیں جائیگا، بلکہ احتیاط سے اس کمرے میں رکھ دیا جائے گا جہاں خالی بوتلوں اور ڈبوں کے انبار لگے ہیں۔کوئی عورت ملنے کے لیے آئے گی تو اسے دروازے ہی سے یہ کہہ کر واپس کردیا جائے گا کہ رات صاحب کی شوٹنگ تھی، اس لیے سو رہے ہیں۔ ملاقات کرنے والی شام کو یا رات کو آئے تو اس سے یہ کہا جاتا تھا کہ صاحب شوٹنگ پر گئے ہیں۔

رام سروپ کا گھر تقریباً ویسا ہی تھا جیسا کہ عام طور پر اکیلے رہنے والے مجرد مردوں کا ہوتا ہے، یعنی وہ سلیقہ، قرینہ اور رکھ رکھاؤ غائب تھا جو نسائی لمس کا خاصہ ہوتا ہے۔ صفائی تھی مگر اس میں کھرا پن تھا۔۔۔ پہلی مرتبہ جب میں اس کے فلیٹ میں داخل ہوا تو مجھے بہت شدت سے محسوس ہوا کہ میں چڑیا گھر کے اس حصے میں داخل ہوگیا ہو جو شیر، چیتے اور دوسرے حیوانوں کے لیے مخصوص ہوتا ہےکیونکہ ویسی ہی بو آرہی تھی۔

ایک کمرا سونے کا تھا، دوسرا بیٹھنے کا، تیسرا خالی بوتلوں اور ڈبوں کا۔ اس میں رَم کی وہ تمام بوتلیں اور سگریٹ کے وہ تمام ڈبے موجود تھے جو رام سروپ نے پی کر خالی کیے تھے۔ کوئی اہتمام نہیں تھا۔ بوتلوں پر ڈبے اور ڈبوں پر بوتلیں اوندھی سیدھی پڑی ہیں۔ ایک کونے میں قطار لگی ہے تو دوسرے کونے میں انبار، گرد جمی ہوئی ہے، اور باسی تمباکو اور باسی رَم کی ملی جلی تیز بو آرہی ہے۔

میں نے جب پہلی مرتبہ یہ کمرہ دیکھا تو بہت حیران ہوا۔ ان گنت بوتلیں اور ڈبے تھے۔۔۔ سب خالی ہیں۔ میں نے رام سروپ سے پوچھا،’’ کیوں بھئی، یہ کیا سلسلہ ہے؟‘‘

اس نے پوچھا،’’کیسا سلسلہ؟‘‘

میں نے کہا،’’یہ۔۔۔ یہ کباڑ خانہ؟‘‘

اس نے صرف اتنا کہا،’’جمع ہو گیا ہے!‘‘

یہ سن کر میں نے بولتے ہوئے سوچا،’’اتنا۔۔۔! اتنا کوڑا جمع ہونے میں کم از کم سات آٹھ برس چاہئیں۔‘‘

میرا اندازہ غلط نکلا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اس کا یہ ذخیرہ پورے دس برس کا تھا۔ جب وہ شیوا جی پارک رہنے آیا تھا تو وہ تمام بوتلیں اور ڈبے اٹھوا کے اپنے ساتھ لے آیا تھا جو اس کے پرانے مکان میں جمع ہو چکے تھے۔ ایک بار میں نے اس سے کہا،’’سروپ، تم یہ بوتلیں اور ڈبے بیچ کیوں نہیں دیتے؟ میرا مطلب ہے، اول تو ساتھ ساتھ بیچتے رہنا چاہئیں۔۔۔ پر اب کہ اتنا انبار جمع ہو چکا ہے اور جنگ کے باعث دام بھی اچھے مل سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں تمہیں یہ کباڑخانہ اٹھوا دینا چاہیے!‘‘

اس نے جواب میں صرف اتنا کہا،’’ہٹاؤ یار۔۔۔ کون اتنی بک بک کرے!‘‘

اس جواب سے تو یہی ظاہر ہوتا تھا کہ اسے خالی بوتلوں اور ڈبوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ لیکن مجھے نوکر سے معلوم ہوا کہ اگر اس کمرے میں کوئی بوتل یا ڈبہ ادھر کا ادھر ہو جائے تو رام سروپ قیامت برپا کردیتا تھا۔

عورت سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میری، اس کی بہت بے تکلفی ہوگئی تھی۔ باتوں باتوں میں مَیں نے کئی بار اس سے دریافت کیا،’’کیوں بھئی شادی کب کرو گے؟‘‘

اور ہر بار اس قسم کا جواب ملا،’’شادی کرکے کیا کروں گا؟‘‘

میں نے سوچا،واقعی رام سروپ شادی کرکے کیا کرے گا۔۔۔؟ کیا وہ اپنی بیوی کو خالی بوتلوں اور ڈبوں والے کمرے میں بند کردے گا۔۔۔؟ یا سب کپڑے اتار، نیکر پہن کر رم پیتے اس کے ساتھ کھیلا کرے گا؟ میں اس سے شادی بیاہ کا ذکر تو اکثر کرتا تھا مگر تصور پر زور دینے کے باوجود اسے کسی عورت سے منسلک نہ دیکھ سکتا۔

رام سروپ سے ملتے ملتے کئی برس گزر گئے۔ اس دوران میں کئی مرتبہ میں نے اڑتی اڑتی سنی کہ اسے ایک ایکٹرس سے جس کا نام شیلا تھا، عشق ہوگیا ہے۔ مجھے اس افواہ کا بالکل یقین نہ آیا۔ اول تو رام سروپ سے اس کی توقع ہی نہیں تھی۔ دوسرے شیلا سے کسی بھی ہوش مند نوجوان کو عشق نہیں ہوسکتا تھا، کیونکہ وہ اس قدر بےجان تھی کہ دق کی مریض معلوم ہوتی تھی۔۔۔ شروع شروع میں جب وہ ایک دو فلموں میں آئی تھی تو کسی قدر گوارا تھی مگر بعد میں تو وہ بالکل ہی بے کیف اور بے رنگ ہوگئی تھی اور صرف تیسرے درجے کے فلموں کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئی تھی۔

میں نے صرف ایک مرتبہ اس شیلا کے بارے میں رام سروپ سے دریافت کیا تو اس نے مسکرا کر کہا،’’ میرے لیے کیا یہی رہ گئی تھی!‘‘

اس دوران میں اس کا سب سے پیارا کتا اسٹالن نمونیا میں گرفتار ہوگیا۔ رام سروپ نے دن رات بڑی جانفشانی سے اس کا علاج کیا مگر وہ جانبر نہ ہوا۔ اس کی موت سے اسے بہت صدمہ ہوا۔ کئی دن اس کی آنکھیں اشک آلود رہیں، اور جب اس نے ایک روز باقی کتے کسی دوست کو دے دیے تو میں نے خیال کہ اس نے اسٹالن کی موت کے صدمے کے باعث ایسا کیا ہے، ورنہ وہ ان کی جدائی کبھی برداشت نہ کرتا۔

کچھ عرصے کے بعد جب اس نے بندر اور بندریا کو بھی رخصت کردیا تو مجھے کسی قدر حیرت ہوئی، لیکن میں نے سوچا کہ اس کا دل اب اور کسی کی موت کا صدمہ برداشت نہیں کرنا چاہتا۔ اب وہ نیکر پہن کر رم پیتے ہوئے صرف اپنی بلی نرگس سے کھیلتا تھا۔ وہ بھی اس سے بہت پیار کرنے لگی تھی، کیونکہ رام سروپ کا سارا التفات اب اسی کے لیے موقوف ہوگیا تھا۔اب اس کے گھر سے شیر، چیتوں کی بو نہیں آتی تھی۔ صفائی میں کسی قدر نظر آجانے والا سلیقہ اور قرینہ بھی پیدا ہو چلا تھا، اس کے اپنے چہرے پر ہلکا سا نکھار آگیا تھا مگر یہ سب کچھ اس قدر آہستہ آہستہ ہوا تھا کہ اس کے نقطہ آغا زکا پتا چلانا بہت مشکل تھا۔

دن گزرتے گئے۔ رام سروپ کا تازہ فلم ریلیز ہوا تو میں نے اس کی کردار نگاری میں ایک نئی تازگی دیکھی۔ میں نے اسے مبارک باد دی تو وہ مسکرا دیا،’’لو،وسکی پیو!‘‘

میں نےتعجب سے پوچھا،’’وسکی؟‘‘ اس لیے کہ وہ صرف رَم پینے کا عادی تھا۔

پہلی مسکراہٹ کو ہونٹوں میں ذرا سکیڑتے ہوئے اس نے جواب دیا،’’رم پی پی کر تنگ آگیا ہوں۔‘‘

میں نے اس سے اور کچھ نہ پوچھا۔

آٹھویں روز جب اس کے ہاں شام کو گیا تو وہ قمیص پائجامہ پہنے، رم۔۔۔نہیں،وسکی پی رہا تھا۔۔۔ دیر تک ہم تاش کھیلتے اور وسکی پیتے رہے۔ اس دوران میں مَیں نے نوٹ کیا کہ وسکی کا ذائقہ اس کی زبان اور تالو پر ٹھیک نہیں بیٹھ رہا، کیونکہ گھونٹ بھرنے کے بعد وہ کچھ اس طرح منہ بناتا تھا جیسےکسی ان چکھی چیز سے اس کا واسطہ پڑا ہوا ہے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا،’’ تمہاری طبیعت قبول نہیں کررہی وسکی کو؟‘‘

اس نے مسکرا کر جواب دیا،’’ آہستہ آہستہ قبول کرلے گی۔‘‘

رام سروپ کا فلیٹ دوسری منزل پر تھا۔ ایک روز میں ادھر سے گزر رہا تھا کہ دیکھا، نیچے گیراج کے پاس خالی بوتلوں اور ڈبوں کے انبار کے انبار پڑے ہیں۔ سڑک پر دو چھکڑے کھڑے ہیں جن میں تین چار کباڑیئے ان کو لاد رہے ہیں، میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی، کیونکہ یہ خزانہ رام سروپ کے علاوہ اور کس کا ہو سکتا تھا۔۔۔ آپ یقین جانئےاس کو جدا ہوتے دیکھ کر میں نے اپنے دل میں ایک عجیب قسم کا درد محسوس کیا۔۔۔ دوڑا اوپر گیا ،گھنٹی بجائی۔ دروازہ کھلا۔ میں نے اندر داخل ہونا چاہا تو نوکر نے خلافِ معمول راستہ روکتے ہوئے کہا،’’ صاحب، رات شوٹنگ پر گئے تھے، اس وقت سو رہے ہیں۔‘‘

میں حیرت سے اور غصے سے بوکھلا گیا۔۔۔ کچھ بڑبڑایا اور چل دیا۔

اسی روز شام کو رام سروپ میرے ہاں آیا۔۔۔ اس کے ساتھ شیلا تھی، نئی بنارسی ساڑھی میں ملبوس۔۔۔ رام سروپ نے اس کی طرف اشارہ کرکے مجھ سے کہا،’’میری دھرم پتنی سے ملو۔‘‘

اگر میں نے وسکی کے چار پیگ نہ پئے ہوتے تو یقیناً یہ سن کر بے ہوش ہوگیا ہوتا۔

رام سروپ اور شیلا صرف تھوڑی دیر بیٹھے اور چلے گئے۔۔۔ میں دیر تک سوچتا رہا کہ بنارسی ساڑھی میں شیلا کس سے مشابہ تھی۔۔۔ دبلے پتلے بدن ہلکے بادامی رنگ کی کاغذی سی ساڑھی۔ کسی جگہ پھولی ہوئی، کسی جگہ دبی ہوئی۔۔۔ ایک دم میری آنکھوں کے سامنے ایک خالی بوتل آگئی، باریک کاغذ میں لپٹی ہوئی۔

شیلا عورت تھی۔۔۔ بالکل خالی، لیکن ہو سکتا ہے ایک خلا نے دوسرے خلا کو پر کردیا ہو۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.