حیران سی ہے بھچک رہی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حیران سی ہے بھچک رہی ہے
by رند لکھنوی

حیران سی ہے بھچک رہی ہے
نرگس کس گل کو تک رہی ہے

آئی ہے بہار غنچے چٹکے
کیا پھولوں کی بو مہک رہی ہے

مے خانے پہ مینہ برس رہا ہے
بجلی کیسی چمک رہی ہے

باقی ہے اثر ابھی جنوں کا
سودا تو گیا ہے جھک رہی ہے

پوچھو نہ جلن کا دل کے احوال
اک آگ پڑی دہک رہی ہے

نرگس کو تو آنکھ اٹھا کے دیکھو
کس یاس سے تم کو تک رہی ہے

لیلیٰ مجنوں کا رٹتی ہے نام
دیوانی ہوئی ہے بک رہی ہے

پیغام بہار آن پہونچا
بلبل کیا کیا چہک رہی ہے

مژگاں کا جو دل میں ہے تصور
اک پھانس پڑی کھٹک رہی ہے

ہو جائے گا رام رفتہ رفتہ
وحشت تو مٹی جھجک رہی ہے

باقی جو یہ جان ناتواں ہے
کیا زندوں میں ہے سسک رہی ہے

آنے کی ترے ہی منتظر ہے
او موت کہاں تو تھک رہی ہے

کیا شوخ ہے وہ سنہری رنگت
کندن کی طرح دمک رہی ہے

روئے رنگیں عرق فشاں ہے
شبنم گل سے ٹپک رہی ہے

ہم رندؔ ہیں بزم اپنی کس رات
بے جام مے و گزک رہی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse