حیات و موت کا اک سلسلا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حیات و موت کا اک سلسلا ہے
by باسط بھوپالی

حیات و موت کا اک سلسلا ہے
محبت انتہا تک ابتدا ہے

میں کیا جانوں کہ باب توبہ کیا ہے
ابھی تو میکدے کا در کھلا ہے

ذرا پھر دل پہ نظریں ڈال دیجے
چراغ آرزو خاموش سا ہے

عطا کر دی تمہاری آرزو نے
وہ اک دنیا جو دنیا سے جدا ہے

حسیں ہوں لاکھ دنیا کے مناظر
وہ کیا دیکھے جو تم کو دیکھتا ہے

نظر کے ساتھ نظارہ بھی گم ہے
دل مضطر یہ کس کا سامنا ہے

مرے دل کو نہ رکھ بے رنگ ساقی
کہ ہر ساغر گلابی ہو رہا ہے

نہ دوزخ ہے نہ جنت ہے تو باسطؔ
مرے اعمال غم کا کیا صلا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse