حیات ماہ لقا/چندا بی بی المخاطب ماہ لقا بائی کے خاندانی حالات اور حسبی و نسبی واقعات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

چندا بی بی المخاطب ماہ لقا بائی کے خاندانی حالات اور حسبی و نسبی واقعات


جس زمانہ میں کہ ہندوستان جنت نشان کی زمامِ فرماں راوئی حضرت ابو الفتح نصیر الدین محمد شاہ بادشاہ فردوس آرامگاہ کے دست قدرت میں تھی اور شہر شاہ جہاں آباد (دہلی) پر سرسبزی و شادابی کے باعث جوبن پھٹا پڑتا تھا،ایک شخص غریب الوطن مُفلس و آوارہ، لیکن شریف خاندان، عالی ہمت خواجہ محمد حسین خاں نام قصبۂ بارہہ (جو سادات زیدی کا مسکن و مقام ہے) کا رہنے والا واردِ دہلی ہوا۔ چونکہ ملکی و مالی حالات سے ماہر، سلیقہ شعار، بلند فطرت تھا؛ اس لیے بہت جلد اپنی جوہرِ کاردانی کے باعث احمدآباد (گجرات) کے ناظم کی طرف سے کڑوڑ گیری پر مامور ہوا۔ مزاج میں عیاشی اور حسن پرستی کا چسکا بہت تھا، اس لیے عقد کے لیے کسی خوبصورت عورت کی تلاش شروع کی۔ اتفاقاً ایک بزرگ خواجہ زادگان سے کاٹھیاواڑ کے رہنے والے احمدآباد (گجرات) میں مقیم تھے لیکن غربت کے باعث نہایت مستغنی المزاج، دولت دنیا سے فارغ و بے فکر رہتے تھے۔ ان کو ایک لڑکی ماہ پیکر، رشک حور چندا بی بی نام موجود تھی۔ چنانچہ خواجہ محمد حسین خاں نے پیام بھیج کر ان بزرگ کو راضی کیا اور اس لڑکی کو اپنے حبالۂ عقد میں لایا۔ ایک مدت کے عیش و کامرانی میں 19 بچے پیدا ہوئے۔ مگر حوادث روزگار کے باعث اکثر کم سنی میں چل بسے۔ صرف پانچ بچے مثل حواس خمسہ زندہ باقی رہے جو آئندہ عمر طبعی کو پہنچے۔ ان میں دو لڑکے غلام حسین و غلام محمد نام تھے اور تین لڑکیاں جن کو نور بی بی، بولن بی بی، میدا بی بی کہتے تھے۔

چونکہ فلک کج رفتار کی چال ایک وضع پر نہیں رہتی اور خواجہ محمد حسین خاں کی زندگی ہمیشہ عیش و طرب میں گزرتی تھی۔ اس کے ساتھ اسراف و فضول خرچی بھی طبیعت میں بہت تھی، چنانچہ اس اسراف و فضول خرچی کے بدولت ذاتی رقم کے علاوہ بہت کچھ سرکار کی امانتی رقم بھی خان مذکور کے تصرف میں آ گئی۔ دشمنوں نے اس کی خبر ناظم احمدآباد کو پہنچائی۔ فوراً حساب کی جانچ پڑتال کی گئی جس میں کچھ واجبی اور کچھ غیر واجبی بدر نکالی گئی۔ بدر کی مقدار ایسی زیادہ تھی کہ جس کی ادائی محال تھی۔ آخر خواجہ محمد حسین خاں نے بہ پاسِ آبرو کمال سراسیمگی کی حالت میں فرار پر کمر باندھی اور اپنے وطن مالوفہ کو روانہ ہو گیا۔ بیوی بچوں کو مصیبت کا شکار بنایا اور بلدۂ احمدآباد میں بے کس و لاوارث چھوڑ گیا۔ جب ناظم گجرات کو محمد حسین خاں کے فرار کی خبر لگی تو تمام نقد و جنس جو کچھ موجود تھا، ضبط کر لیا۔ بلکہ چندا بی بی کو بھی مع اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے نظر بند کیا۔


چندا بی بی کی فراری

چند روز ان بے کسوں نے تھوڑے بہت متفرق اشیا جو ضبطی سے بچے ہوئے تھے، ان کو بیچ کر غربت کے ساتھ جوار باجرا کھا کر نظر بندی میں گزارا۔ جب کچھ بھی نہ رہا تو چندا بی بی نے فاقہ کشی سے تنگ آ کر آخر فرار کی ٹھہرائی اور بچوں کو لے کر آبادی کو چھوڑ جنگل کا راستہ لیا۔


چندا بی بی کا قصبہ دیولیہ میں پہنچنا

چنانچہ چند روز کی صحرا نوردی کے بعد چندا بی بی کا گزر بہ مقتضائے قضا و قدر قصبہ دیولیہ میں ہوا جہاں یہ غمزدہ مع اپنے کم سن بچوں کے اتفاقات و شامت کے باعث بھگتیوں کے محلہ میں قیام پذیر ہوئی اور بھگتیوں نے ان غریب الوطنوں پر ترس کھا کر چندے ان کی قوت بسری کا سامان کر دیا۔ لیکن چند روز کے بعد ان بھگتیوں نے چندا بی بی کو یہ ترغیب دی کہ اب حسب و نسب کو طاق پر رکھ کر ان لڑکیوں کو جو حسن و جمال میں ماہِ چہاردہ ہیں، رقص و سرود کی تعلیم دلائی جائے تاکہ کسب معاش و تحصیل قوت کا ذریعہ نکلے اور فراغت سے گزرے۔ اول تو چندا بی بی نے اس تجویز کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا، لیکن جب بے کسی اور فاقہ کشی پر نظر ڈالی تو آخر اس تجویز پر کاربند ہونا پڑا۔ چنانچہ لڑکیوں کو رقص و سرود کی تعلیم دلانا شروع کی۔


راجا سالم سنگھ کی خبر گیری

ان دنوں قصبہ دیولیہ کا حاکم (راجا) سالم سنگھ نام نہایت نامور، شجیع، حسن و جمال میں بے نظیر، مال و دولت، حمعیت و حشمت کی زیادتی کے باعث صوبۂ گجرات میں مشہور تھا۔ جب اس کو خواجہ محمد حسین خاں کے عیال و اطفال کی بے سر و سامانی کی کیفیت معلوم ہوئی تو بلحاظ سرداری ان کی خبرگیری شروع کی اور ان مصیبت زدوں کے رہنے کے لیے ایک مکان بھی دیا اور اس کے ساتھ ضروری اسباب بھی مہیا کر دیا۔


راجا سالم سنگھ کا عشق میدا بی بی کے ساتھ

چند روز کے بعد چندا بی بی کی چھوٹی لڑکی میدا بی بی کے حسن و جمال نے سالم سنگھ کو ایسا شیفتہ و شیدا کیا کہ صبر و قرار جاتا رہا۔ چنانچہ اس دوشیزہ حور پیکر کے رام کرنے کے لیے تحفہ و تحائف بھیجنا شروع کیا۔ بعد چند روز کے چندا بی بی سے اپنا مافی الضمیر ظاہر کیا جس کو چندا بی بی نے بمصلحت وقت قبول کیا اور میدا بی بی کو ہم آغوشی کے لیے راجا سالم سنگھ کے گھر بھیج دیا۔


مہتاب بی بی کا تولد

کچھ مُدت کے بعد راجا سالم سنگھ کے صُلب سے میدا بی بی کو ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام مہتاب بی بی رکھا گیا۔ لائق نجومیوں نے اس نومولود لڑکی کے متعلق یہ حکم لگایا کہ یہ لڑکی آئندہ کسی امیر ذیشان یا وزیر والا تدبیر کی حرم محترم ہو گی۔ چنانچہ یہ پیشین گوئی بہت صحیح ثابت ہوئی جس کا ذکر آئندہ آوے گا۔ سالم سنگھ کی زوجہ کا میدا بی بی پر جادو کرنا

الحاصل جب میدا بی بی کے بطن سے یہ لڑکی پیدا ہوئی تو راجا سالم سنگھ کی محبت روز بروز زیادہ ہونے لگی۔ ادھر راجا سالم سنگھ کی منکوحہ رانی نے رشک و حسد کے باعث میدا بی بی پر جادو، منتر، جنتر کرنا شروع کیا۔ چنانچہ اس کی تاثیر سے ایک روز میدا بی بی دفعتاً مثل مرض سکتہ کے بے حس و حرکت ہو گئی۔ بلکہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ طائر روح قفس عنصری سے پرواز کر گیا ہے۔ چونکہ فضل ایزدی شامل حال اور رشتۂ حیات مضبوط تھا، اس لیے تعویذ، فلیتہ، جنتر، منتر سے چند روز کے بعد میدا بی بی کا مزاج درست ہو گیا۔


چندا بی بی کا انتقال

لیکن اس صدمۂ جانکاہ سے میدا بی بی کی ماں چندا بی بی نے یکایک انتقال کیا جس سے یہ نوجوان لڑکیاں سخت خائف اور ہراساں ہوئیں اور خیال پیدا ہو کہ کہیں ہمارا حال بھی ایسا نہ ہو جائے۔ اس لیے اپنے اپنے جان کی حفاظت کرنے لگیں۔


بھگتیوں کے ساتھ تینوں لڑکیوں کی فراری

جس زمانہ میں کہ چندا بی بی اپنی لڑکیوں کے ساتھ قصبۂ دیولیہ کے بھگتیوں کے محلہ میں فروکش ہوئی اور بعد از انکار بسیار رقص و سرود کی تعلیم لڑکیوں کو دلانا شروع کی تھی اور میدا بی بی کو رام سنگھ کی ہمخوابی کے لیے بھیجا تھا تو نور بی بی اکثر شوق و محبت سے بھگتیوں کے گھر جا کر گانے بجانے کی تعلیم حاصل کرتی اور گھر میں آ کر اپنی چھوٹی بہن بولن بی بی کو بھی اس کی تعلیم دیتی تھی۔ چنانچہ یہ دونوں بہنیں علم موسیقی میں اعلیٰ درجہ کی ماہر ہو گئیں اور بھگتیوں کو تعلیم دینے کے باعث ان لڑکیوں پر ہر طرح کی حکومت ہو گئی تھی۔ جب چندا بی بی کا انتقال ہو گیا تو میدان صاف ہو گیا اور ان بھگتیوں نے اپنے کمانے اور نفع پیدا کرنے کی خواہش میں یہ تجویز کی کہ میدا بی بی کو سالم سنگھ کے گھر سے بھگا کر سب یکساتھ کسی دوسرے ملک میں بھاگ کر چلے جائیں اور وہاں ان لڑکیوں کے ذریعہ خوب کمائیں۔

چونکہ جادو منتر کا خوف ان لڑکیوں کے دل میں بے حد بیٹھا ہوا تھا، اس لیے اس تجویز پر فوراً راضی ہو گئیں اور ایک تقریب کے موقع پر قابو پا کر میدا بی بی کو راجا سالم سنگھ کے گھر سےنکال لائے اور سب کے سب مع بھگتیوں کے فرار ہو گئے۔ چنانچہ صوبہ مالوا کے راستہ سے دریائے نربدا عبور کر کے ملک دکن کو روانہ ہوئے۔ مگر اس پریشانی اور دوڑ دھوپ میں میدا بی بی کے دونوں بھائی غلام حسین و غلام محمد (جو اس سفر میں ساتھ تھے) کہیں چھوٹ گئے، حتی کہ ہمیشہ کے لیے مفقود الخبر ہو گئے۔ اب ان لڑکیوں کے پاس کوئی محرم مرد کی صورت نہ رہی۔


بھگتیوں کا مع لڑکیوں کے برہان پور پہنچنا اور تبدیل نام کرنا

یہ زمانہ ہندوستان میں فردوس آرامگاہ محمد شاہ کی پادشاہی کا تھا اور نواب نظام الملک آصف جاہ بہادر برہانپور میں مع لشکر فیروزی رونق افروز تھے۔ چنانچہ یہ بھگتیے لڑکیوں کو لے کر بعد قطع مراحل ١١٦١؁ھ میں اولاً وارد برہان پور ہوئے اور لشکر فیروزی میں قیام کیا۔

جب لشکر فیروزی برہان پور سے کوچ کر کے اورنگ آباد آیا تو یہ بھی لشکر فیروزی کے ساتھ ساتھ اورنگ آباد آئے۔ چونکہ ان لڑکیوں کو تحصیل معاش کا کوئی ذریعہ نہ تھا، اس لیے اورنگ آباد پہنچنے کے بعد بھگتیوں کی ترغیب سے رقاصی کا پیشہ اختیار کر کے اپنے کو شہرت دیں اور اس شہرت کے ساتھ اصلی نام تبدیل کر کے نور بی بی برج کنور بائی([1]) اور بولن بی بی بولن کنور بائی اور میدا بی بی راج کنور بائی اور مہتاب بی بی مہتاب کنور بائی سے موسوم ہوئیں۔ اور مہتاب کنور بائی کو (جو راجا سالم سنگھ کے صلب سے تھی) مع راج کنور بائی کے گھر میں چھوڑ کر یہ دونوں ناچ گانےکو جانے لگیں۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں ان کی شہرت ایسی ہو گئی کہ اکثر امرا و اعزا کے پاس ناچ و مُجرے کی طلبی ہونے لگی اور راج کنور بائی کا اختلاط وار تباط امرائے آصف جاہی سے ایسا بڑھا کہ ہر ایک انھیں کا دم بھرنے لگا۔


عماد الدولہ بہادر و بہادر شاہ اور آصف جاہ بہادر کا انتقال

جن ایام میں کہ آصف جاہ نظام الملک بہادر برہان پور میں مشغول سیر و شکار تھے، اوائل 1161؁ھ میں یہ خبر بد آئی کہ احمد شاہ ابدالی نے دہلی پر چڑھائی کی اور عماد الدولہ چین قمر الدین خاں مدار المہام سلطنت مقتول ہوئے اور محمد شاہ بادشاہ نے وفات پائی۔

بمجرد استماع اس خبر وحشت اثر کے نواب آصف جاہ بہادر کی خاطرِ شگفتہ پژمردہ ہو گئی۔ چونکہ سن شریف بھی عمر طبعی کو پہنچ چکا تھا، اس لیے دفعتاً مزاج مبارک جادۂ اعتدال سے منحرف ہوا اور ضعف و نقاہت کی زیادتی ہوئی۔ اطبائے حاذق حاضر ہوئے، علاج شروع کیا گیا اور 27؍ جمادی الاول 1161؁ھ کو برہان پور سے کوچ کر کے زیناباد کے جنوب رویہ لشکر فیروزی کا مضرب قیام ہوا۔ لیکن افسوس ہے کہ مرض میں افاقہ نہ ہوا۔ روز بروز ترقی پذیر ہوتا چلا۔ آخر 5؍ جمادی الثانی 1161؁ھ روز یکشنبہ کو اس اولوالعزم اور نامدار رئیس اعظم (آصف جاہ بہادر) نے اعلیٰ علیین کا راستہ لیا۔ بعد انتقال مغفرت مآب کے لقب سے ملقب ہوئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مہتاب کنور بائی کو ارسطو جاہ بہادر کا اپنے نکاح میں لانا اور صاحب جی صاحبہ خطاب ملنا

اس کے چند روز بعد وہ پیشین گوئی جو نجومیوں نے مہتاب کنور بائی کے نسبت کی تھی، اس کا ظہور ہوا یعنی احتشام جنگ رکن الدولہ بہادر مدار المہام سلطنت آصفیہ مہتاب کنور بائی کے حسن خداداد کے ایسے والہ و شیدا ہوئے کہ اس کی ماں (راج کنور بائی) کو راضی کر کے مہتاب کنور بائی کو اپنے عقد شرعی میں لایا اور صاحب جی صاحبہ خطاب عطا کیا۔

ارسطو جاہ بہادر کے دل میں مہتاب کنور بائی کی محبت و الفت نے ایسا گھر کیا تھا اور اس کے طالع بلند نے ایسی یاوری کی تھی کہ سیر و شکار، سفر و حضر، بلکہ مہمات جنگی میں بھی بہ تجمل و احتشام ہاتھی پر سوار رکن الدولہ کے ہمراہ رہتی تھی اور جہاں کہیں قیام ہوتا تو تمام فوج شاہی صف باندھ کر آداب بجا لاتی۔

جب ارسطور جاہ بہادر، راؤ اعظم مادھو راؤ پنڈت پردھان کی ملاقات کے لیے پونہ کو روانہ ہوئے تو مہتاب کنور بائی بھی ساتھ تھیں۔

بہر حال ارسطو جاہ بہادر کو مہتاب کنور بائی کی جدائی اور مفارقت ایک منٹ کے لیے بھی گوارا نہ تھی اور ارسطو جاہ بہادر کے خاطر و خوشی کے لیے اکثر امرائے نامدار و منصب دار شاہی، مہتاب کنور بائی کا کمال اعزاز و احترام کرتے تھے۔ چنانچہ ظفر الدولہ مبارز الملک بہادر اور شمشیر الدولہ بہادر جیسے امرائے نامدار زنانی ڈیوڑھی (مہتاب کنور بائی کا محل) پر حاضر ہو کر مراسم سلام و نیاز اور عیدین کی مبارکباد بجا لاتے تھے اور محل سرا (مہتاب کنور بائی) کے اندر سے ان امرائے نامدار کو پاندان رخصت مرحمت ہوتا تھا۔

علاوہ بریں خود رکن الدولہ بہادر بھی نہایت عزت و توقیر فرماتے تھے جس کے باعث رکن الدولہ بہادر کے بھائیان شرف الدولہ شرف الملک بہادر، میر حامد یار خاں ارسلان یار جنگ بہادر اور میر ایزدیار خاں حشمت جنگ بہادر بھی کمال ادب سے آداب بجا لاتے تھے۔ جب رکن الدولہ بہادر نے شہادت پائی تو مہتاب کنور بائی اپنی اصالت و نجابت کے باعث مثل پردہ نشینان عفت مآب کے گوشہ نشینی اختیار کی اور ہمیشہ پنجگانہ نماز اور روزہ، وظائف و اوراد، تسبیح و تہلیل میں تمام عمر بسر کی۔ مان کنور بائی کا تولد

اورنگ آباد کی سکونت کے زمانہ میں راج کنور بائی حاملہ ہوئی اور بعد ایام مقررہ وضع حمل ہونے پر ایک لڑکی پری پیکر، حور منظر پیدا ہوئی، جس کا نام مان کنور بائی رکھا گیا۔ یہ لڑکی ایسی حسین و مہ پارہ تھی کہ ایام دوشیزگی و خورد سالی میں ہی نواب بسالت جنگ شجاع الملک بہادر (جو نواب میر نظام علی خاں بہادر کے بھائی تھے) نے اس کے حسن لاثانی سے والہ و فریفتہ ہو کر اپنے محل میں لا کر رکھا اور نواب ممدوح اس سے اس قدر محبت و دلبستگی رکھتے تھے کہ اگر کبھی کنور بائی بمقتضائے کم سنی لہو و لعب میں مشغول ہوتی تو آپ بھی اس کے پاسِ خاطر سے اس لہو و لعب میں شریک ہوتے۔ مگر افسوس ہے کہ یہ حور منظر ایک لڑکا پیدا ہونے کے بعد انتقال کی جس کا داغ نواب کے دل پر بے حد ہوا۔


بسالت خاں بخشی صرف خاص سے راج کنور بائی کا تعلق پیدا ہونا

جب ان بھگتیوں نے (کیونکہ یہ لڑکیاں انھیں کے زیر اطاعت تھیں) لشکر آصف جاہی میں اپنے پیدائش و کمائی کی صورت دیکھی تو مستقل طور پر قیام کر لیا اور راج کنور بائی سے اکثر امرائے آصف جاہی محبت و الفت کرنے لگے۔ کیونکہ راج کنور بائی بہ نسبت اپنی دوسری بہنوں کے نہایت قبول صورت، نیک سیرت، صاحب اخلاق اور بامروت تھی مگر کسی کا بھی کمند مدعا راج کنور بائی کے محل مقصور پر نہ پہنچا اور حسب سرنوشت ازلی و تقدیرِ لم یزلی راج کنور بائی کا نقش موانست امیر نامدار نواب بسالت خاں بہادر آصف جاہی بخشی صرفِ خاص کے لوحِ دل پر درست بیٹھا۔

اب یہاں پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ناظرینوں کی دلچسپی اور معلومات کے لیے نواب بسالت خاں بہادر بخشی صرف خاص کے حسب و نسب اور خاندانی حالات کا کسی قدر تذکرہ کیا جائے جس سے مہ لقا بائی (جس کی یہ سوانح عمری ہے) کے حسب و نسب کی کیفیت، عالی خاندانی کا حال، شرافت و نجابت کے اسباب ظاہر ہوں۔

اگر تھوڑا سا غور کر کے انصاف سے کام لیا جائے تو یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ مہ لقا بائی کے عالی خاندانی کا سلسلہ نہایت نامور اور شریف خاندان سے تھا۔ لیکن قضا و قدر کے معاملہ میں کس کو چارہ ہے۔ خواجہ محمد حسین خاں کا اسراف و فراری، عیال و اطفال کی بے کسی و بے بسی، خبر گیران مفقود، پرورش کا ذریعہ مسدود، زمانۂ غربت، رذیل صحبت، مجبور و معذور، نالائق رائے کے باعث رقاصی کا پیشہ اختیار کرنا پڑا جس سے خاندان کی عظمت برباد گئی۔ کلنگ کا ٹیکا ماتھے پر ہمیشہ کے لیے نمایاں رہا۔ ورنہ ماہ لقا بائی کے عادات و اطوار، لیاقت و ہوشیاری، فیاضی و جرأت، گفتگو اور سلیقہ، مروت و اخلاق، اوقات و وضع کی پابندی، صوم و صلوٰۃ کا خیال، یہ سب کچھ اعلیٰ خاندانی اور نجیب الطرفینی کے پورے پورے موید و معین تھے۔

میدا بی بی عرف راج کنور بائی (ماہ لقا بائی کی ماں) نے بمقتضائے وقت رقاصی کا پیشہ اختیار کیا تھا لیکن وہ شریف خاندان ضرور تھی۔ کیونکہ اس کی ماں چندا بی بی احمدآباد گجرات کے ایک بزرک کی دختر نیک اختر تھیں اور اس کا باپ خواجہ محمد حسین خاں قصبۂ بارہہ کا رہنے والا ایک شریف خاندان کا یادگار تھا۔ بہر حال راج کنور بائی کو صلب اور بطن دونوں پاک و صاف ملے تھے۔ پھر عجب کیا ہے کہ اس کی لڑکی ماہ لقا بائی جو ایک شریف و نجیب خاندان کے رکن امیر نامدار بسالت خاں بہادر بخشی صرف خاص کے صلب سے پیدا ہوئی ہو، جملہ اوصاف حمیدہ سے متصف نہ ہو اور حسب و نسب کے عادات و خصائل اس کو ورثہ میں نہ ملے ہوں۔ چنانچہ اسی باعث ماہ لقا بائی من حیث المجموع جملہ صفات حسنہ کا مجموعہ تھی۔ خیر آمدم بر سر مطلب۔