حیات شیخ چلی/تیسرا باب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search


تیسرا باب

شیخ چلی کی تعلیم وغیرہ



نویں برس باپ نے بہت مجبور کیا اور وہ محلے والی مسجد کے مکتب میں جانے لگا۔ اپنی لاجواب ذہانت سے بغدادی قاعدے اس نے دسواں برس شروع ہوتے ہوتے ختم کر دیے۔ اُستاد کو اس کے پڑھانے میں کچھ دقت ہی نہ ہوتی تھی۔ کیونکہ وہ ہر کام اصول سے کرتا تھا یعنی دو حرف یک مشت اُستاد اُس کو بتا دیتے تھے اور تین دن میں رے زے رے زے کہتے کہتے وہ بالکل یاد کر لیتا تھا۔

شیخ چلی کے مکتب میں بیٹھنے سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اُستاد کو اتنی سکت ہی نہ رہتی تھی کہ شیخ چلی کی مرمت کے بعد کسی اور لڑکے کو قمچیاں مارنے کا موقع ملتا تھا۔ لڑکے وہی تھے جو اس کے ساتھ کھیلا کرتے تھے اور اس لیے اس نوگرفتار سے انس اور یارانہ پیدا کرنے میں ان کو کچھ محنت نہیں پڑی۔ وہ سدھا ہوا ان کا ہم جولی تھا۔ آپس کی شرارتوں کو وہ آسانی کے ساتھ غریب شیخ کے سر تھوپنے میں کبھی نہ چوکتے اور مولوی صاحب کی پرسش پر یہ صابر اور متحمل لڑکا بے تکلف اپنا قصور قبول کر لیتا۔ بلکہ جس بدسلوکی کی فریاد ہوتی تھی اسی کو عملی طور پر بھی دکھا دیتا کہ میں نے یوں منہ چڑھایا تھا یا اس طرح چپت مار دی تھی۔ لڑکوں کی کتابوں اور قلم دوات کے انتظام میں اس نے بڑی دلچسپی ظاہر کی۔ ممکن نہ تھا وہ کسی کی کتاب پا جاتا اور دو چار ورق کی تخفیف نہ کر دیتا اُس کا خیال تھا کہ اس ترکیب سے کتاب جلد ختم ہو سکتی ہے اور دوسری کتاب شروع کرنے کی اس سے بہتر کوئی تدبیر نہیں ہے۔ قلموں سے وہ میاں جی کے حقہ بھرنے کی انگیٹھی کو ہمیشہ گرم کر دیا کرتا اور نیم سوختہ قلم نکال کے دیتا اور کہتا پھر بنا لو۔ تختی پر وہ اس طرح مشق کرتا کہ تل بھر سفیدی نہ چھوٹتی۔ آسان لٹکا اس کے ہاتھ آگیا تھا کہ دوات سے صوف نکالا اور تختی کو لیپ دیا۔ اس کامیابی پر وہ اس قدر خوش ہوتا کہ استاد کو بغیر دکھائے نہ رہتا۔ جس کا صلہ وہ خوشی سے قبول کرنے پر ہر دم تیار تھا۔

کتب فروش اس کو ہمیشہ دعا دیتے تھے، کیوں کہ اس کی وجہ سے نہ صرف اس کا باپ دوسرے چوتھے روز نئی کتاب خرید کرتا، اور لڑکوں کے ورثا بھی جلد جلد کتابیں لینے پر حریف تھے۔ استاد نے کئی بار اس کو عزت کے ساتھ یہ کہہ کے رخصت کر دیا کہ جاؤ تم فاضل ہو گئے مگر وہ علم کا ایسا شوقین تھا کہ تیسرے ہی روز باپ کے ساتھ مکتب میں داخل ہو جاتا۔ اور پچھلا پڑھا لکھا از سر نو دہراتا تاکہ کچھ غلطی نہ رہ جائے۔

تمام جہان کے معلم بد خو ترش مزاج ہوا کرتے ہیں۔ اس مکتب کے میاں جی ان صفات میں کسی سے پیچھے نہ تھے اور لونڈوں کو بھی بالطبع استاد سے عداوت ہوتی ہے اس کلیہ کی بنا پر ایک بار لڑکوں نے سازش کی کہ مولوی صاحب کو کِوانچ کی پھلیوں کا مزہ چکھانا چاہیے۔ بیچارے نے عمر بھر میں دیکھی بھی نہ ہوں گی۔ اس مشورے میں شیخ چلی صاحب بھی شریک تھے۔ گو سب لڑکوں سے ان کی راے مختلف تھی یعنی ان کی صلاح تھی کہ پھلیوں کو استنجے کے ڈھیلوں پر نہ ملنا چاہیے بلکہ دھوبی ہمارا دوست ہے اس سے کہہ کے پائجامہ میں ملوا دیں گے لیکن کثرت آرا سے ان کی راے نا منظور ہوئی اور حقہ کی مہنال، استنجے کے ڈھیلوں، وضو کے لوٹے میں پھلیاں پیس کے چھڑکی گئیں۔ سویرے یہ سب کام ہو چکا تھا۔ مولوی صاحب نے ابھی کوئی چیز استعمال نہ کی تھی کہ شیخ کا آموختہ سننے بیٹھے۔ یہاں وہی الف دو زبر آن اور آگے آیہ مطلق۔ پٹے اور بہت پٹے۔ تب تو دانت پیس کے مولوی صاحب سے کہہ دیا۔ میں نے تو پاجامہ میں پھلیاں ملنے کو کہا تھا۔ مگر سب نے لوٹے میں ڈالی ہیں اور ڈھیلوں پر ملی ہیں، اب کی بار میں بھی تم کو پان میں کھلا دوں گا۔ مولوی چوکنا ہوئے اور بھید کھل گیا۔ شیخ چلی سے اگر حماقت ہوئی ہے تو عمر میں یہی ہوئی کہ مولوی صاحب بال بال بچ گئے۔ الغرض شیخ چلی اپنی خدا داد طبیعت کے زور دکھا رہا ہے اور روز ایک نئی ادا اس دانش مند لڑکے کے انداز سے پیدا ہو رہی ہے۔ دنیا کے مرقع میں کل نہیں تو اس کے قصبہ سکونتی کے لوگ اس کی حرکات سے دلچسپی حاصل کرنے لگے ہیں اور وہ اتنے سے سن میں ناموری کے آسمان پر زینہ لگا چکا ہے، چڑھنے کی کسر باقی ہے۔ صرف تعلیم میں اس نے پندرہ برس کے سن تک مصروفیت کے ساتھ اپنے کمالات کو ایک متوسط ایشیائی ذی علم کی حد تک پہنچا دیا۔ چونکہ طباعی کے ساتھ اس کا حافظہ بھی بے نظیر تھا، وہ اپنے کل سبق حفظ کر لیا کرتا اور چونکہ ذہین اور طباع آدمی بے پروا بھی ہوا کرتے ہیں اس لیے وہ اپنے لکھنے پڑھنے میں استغنا کو بہت دخل دیتا تھا۔ اسی وجہ سے آج کا سبق جو حفظ کرنے کی حد تک پہنچ جاتا تھا کل بالکل سپاٹ اور سہو محو ہو جاتا تھا۔ جس کو وہ باہمت طالب علم پھر دہرانے سے کبھی نہیں تھکتا تھا۔ اس نے تعلیم کے بعد مکتب چھوڑ دیا اور نام خدا اب جوان ہو گیا، اس لیے شوریدگیِ شباب نے اس کے دلی جذبات کو اور بھی چمکا دیا جس سے اس نے اپنی اس جدید زندگی کو بہت ہی قابل یادگار بنانے میں ذرا بھی کمی نہیں کی۔