حیات شیخ چلی/باب دوم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search


باب دوم

شیخ چلی کی پیدائش



شیخ الغنم کا سلسلہ توالد و تناسل جاری ہوا اور بڑھتے بڑھتے ایک اچھا خاندان ہو گیا۔ سالہاے دراز کی پیداوار سے اس خاندان کو روز افزوں ترقی ہوتی گئی۔ آخر شیخ الغنم کی ساتویں پشت میں شیخ ملھو ایک ذی لیاقت اور تیز فہم شخص ہوا جس کی شادی اس کی چچا زاد بہن بی بی حمیقہ کے ساتھ ہوئی۔ چونکہ جاگیر میں بہت سے حصہ بخرے ہو گئے تھے لہذا شیخ ملھو کچھ زیادہ خوش حال نہ تھا۔ تاہم وہ اپنی ذاتی محنت اور زراعت سے ایک اعتدال کے ساتھ بسر کرتا تھا اور بڑی بات یہ تھی کہ سامان معاشرت اس قدر وسیع نہ تھے جس سے اسراف کی نوبت آئے۔ بہرحال وہ روٹی دال سے خوش تھا اور اپنی محبوبہ بی بی کے ساتھ بسر کرتا تھا۔ سنہ 951 ہجری میں شیخ ملھو کے یہاں بیٹا پیدا ہوا۔ چونکہ زمیندار تھا اور یہ لڑکا بڑی منت مرادوں کا تھا، شیخ نے بڑی دھوم دھام کی اور پانچویں دن شیخ چلی قصبہ چلہ کی مناسبت سے نام رکھا۔

ولادت کے وقت اس نامی مولود نے یہ جدت کی کہ ٹانگیں اوپر اُٹھا دیں، اب ہزار جھکاتے ہیں نہیں جھکتیں۔ خیال ہوا کہ شاید گھٹنوں میں قفلی کا جوڑ نہیں ہے، مگر ٹٹولنے سے کوئی نقصان نہیں پایا گیا۔ دیر تک یہ حالت رہی اس کے بعد آپ روئے اور ٹانگیں سیدھی کر دیں۔ گو یہ ایک اتفاق بات تھی اسی وقت کا پیدا ہوا بچہ کسی ارادے پر قادر نہیں ہو سکتا۔ مگر اوپر والوں نے بات کا بتنگڑ بنا دیا کہ بچہ آسمان کو گرتا ہوا سمجھ کے اپنے پاؤں پر روکنا چاہتا تھا۔ زمانۂ شیرخوارگی کے واقعات ہی کیا ہوں گے جن کو ہم لکھیں اور جو کچھ ہوں گے وہ اُس کے افعال ارادی تو ہو نہیں سکتے، اس لیے ہم بجز اس کے کہ اس کو چھوڑ دیں چارہ ہی نہیں ہے۔ البتہ بہ تحقیق معلوم ہوا ہے کہ جب وہ دودھ پیتے تھے آپ بےانتہا رویا کرتے تھے۔ ادھر ماں نے منہ سے چھاتی ہٹائی کہ خوش ہو گئے، قلقاریاں مارنے لگے۔ شیخ ملھو اپنے تجربات کے بھروسے پر بہت غور کیا کرتے اور بھیڑوں کے بچے کے دودھ پینے کے طریقہ سے بھی اس کو ملا کے دیکھا مگر اس کی علت اس کی سمجھ میں بھی نہ آئی۔ حمیقہ کا تو یہ مشغلہ ہو گیا تھا کہ جب تماشا دیکھنے کو جی چاہتا دودھ پلانے لگتی۔ طرفہ یہ ہے کہ سب بچوں کی طرح دودھ پینے میں ہمارے شیخ چلی صاحب حریص تھے اور اسی طرح ہمک ہمک کے چٹخارے لیتے تھے مگر ساتھ ہی روتے بھی جاتے تھے۔

سوا دو برس تک خوب رو رو اور مچل مچل کے دودھ پیا۔ اس کے بعد بڑھا دیا گیا۔ ایلوے اور نیم کی پتی سے تو اُنھوں نے سلامتی سے کبھی منھ نہیں موڑا۔ مگر عقیلہ جوجو کے نام سے بوٹی کانپتی تھی۔ دودھ تو درکنار اُس کا نام سُن کے وہ پہروں آنکھیں نہ کھولتے اور ماں کو ٹٹول ٹٹول کے ڈھونڈھ لیتے۔

شیخ چلی کو چار سال چار مہینے کے بعد بسم اللہ کے لیے مستعد کیا گیا۔ اللہ آمین اماں باوا کے الفاظ کا وہ یوں بھی عالم بلکہ حافظ ہو چکا تھا۔ اس رسم میں اُستاد نے بہت سر مارا، ہزار طرح پُھسلایا، بہلایا۔ مگر میرے شیر نے سون جو کھینچی پھر نہ بولنا تھا نہ بولا۔ شیخ ملھو نے اُستاد کو آخر کار روک دیا۔ شیخ کو ماں کے پاس پہنچا دیا۔ اس کی ماں نے چٹ پٹ بلائیں لے کے پوچھا کیوں بیٹا بسم اللہ پڑھ آئے۔ شیخ چلی نے گردن کو تین جھٹکے سامنے کی طرف دیے جو اقبال کا اشارہ تھا۔ مگر منہ سے نہ بولا۔ اس رسم کے بعد وہ چند روز تک یونہی چھوٹا رہا اور اپنے ارادے سے جب چاہتا رو لیا کرتا یا ہنستا رہتا۔ اس کا کھیل بھی سب لڑکوں سے جدا تھا۔ یعنی لڑکوں کے ساتھ وہ کھیلتا تھا۔ مگر اس طرح کہ سب تو دوڑ دھوپ رہے ہیں اور یہ ایک طرف بیٹھا ہوا غور اور خوض سے دیکھ رہا ہے۔ جہاں کسی لڑکے نے اپنے کھیل میں غلطی کی اس نے فوراً اصلاح کر دی اور ایسی بات بتا دی کہ سب لڑکے یا تو ہنس پڑے یا اس کو دو چار دھولیں، چپیتیں رسید کر دیں۔ چونکہ وہ ایک ہونہار اور صاحب فکر لڑکا تھا، خدا نے اس کو متانت اور تحمل بھی دیا تھا وہ اس مارپیٹ کی کچھ پروا نہ کرتا اور اپنے دوستوں کی دراز دستی پر رنجیدہ نہ ہوتا۔ ہاں جب اس کا جی چاہتا تو بلاوجہ اور بغیر چھیڑے وہ ایک بڑی اینٹ یا کھنگڑ اٹھا کے اپنے ساتھیوں پر بلا تعین شخصی دے مارتا اور اس قدر کھلکھلا کر ہنستا کہ بے تاب ہو جاتا۔ اس حرکت کا عوض اس سے بہت سختی کے ساتھ لیا جاتا مگر وہ کچھ پروا نہ کرتا اور روتا ہوا اپنی ماں سے جا کے شکایت کرتا۔ لڑکوں پر منحصر نہیں ہے، وہ راہ چلتوں کو اپنی بذل و نوال سے محروم نہ رکھتا اور بے تحاشا ڈھیلے کی تواضع کر بیٹھتا۔

ایک دن لڑکوں نے گدھا پکڑا اور اس کی جان عذاب میں کر دی۔ شیخ چلی کو اس حرکت پر غصہ آیا اور بہزار خرابی گدھے کو ان ظالموں کے ہاتھ سے چھڑا کے الگ لے گیا اور اپنے کمر بند سے اس کے منہ میں گرہ دے کے سوار ہوا اور سیدھا دھوبی کے پاس پہنچا۔ دھوبی ابھی بولنے بھی نہ پایا تھا کہ شیخ چلی اس پر برس پڑا کہ ہم کیا تیرے باپ کے نوکر ہیں جو تیرا گدھا لونڈوں سے چھڑاتے پھریں۔ اگر اب کی بار تو نے گدھے کو چھوڑ دیا تو تیرا گھر پھونک دوں گا۔ دھوبی بہت جھلایا مگر ملھو کو جانتا تھا اور شیخ چلی کی دراز دستی سے بھی واقف تھا، گدھے کو چھین لیا اور شیخ چلی کو شکریہ کے ساتھ رخصت کیا۔

ایک دن وہ پیشاب کرنے بیٹھا اور اتنی دیر تک بیٹھا رہا کہ اس کی ماں کو پکارنے اور خبر لینے کی ضرورت ہوئی۔ مگر اس نے کچھ جواب نہ دیا۔ جب زیادہ دیر ہوئی شیخ ملھو اس کے قریب گیا اور ہاتھ پکڑ کے کھینچا۔ شیخ اٹھ تو کھڑا ہوا مگر بولتا نہیں ہے۔ باپ نے چاہا کہ ماروں۔ شیخ چلی ہاتھ جوڑنے لگا۔ مگر بولا اب بھی نہیں۔ باپ نے غور سے دیکھا تو اس کے دونوں گال اس طرح پھولے نظر آئے گویا کہ کوئی چیز منہ میں بھری ہوئی ہے اور ہونٹ چپکا ہوا ہے۔ شیخ ملھو نے زور سے منہ دبا دیا تو ایک کلی پانی اس کے منہ سے گرا۔ ساتھ ہی وہ رو کے مچل گیا۔ واہ تم نے میری محنت برباد کی، میں نے منہ میں کلی بھر کے پیشاب کرنا چاہا کہ دیکھوں منہ کا پانی پیشاب کی راہ سے نکل جاتا ہے یا نہیں۔

شیخ چلی آٹھ برس کا ہو گیا مگر مکتب میں نہ بیٹھا۔ وہ اپنے ہم جولیوں کے ساتھ دنیا کے خارجی امور کا تجربہ حاصل کرنے میں تو بہت سرگرم تھا مگر پڑھنے میں ان کا ساتھ کبھی نہیں دیا۔ چونکہ سلامت روی اس میں اس درجہ پر تھی کہ باپ کو یقین نہ آتا تھا میرا بیٹا ایک غیر معمولی طبیعت کا انسان ہونے والا ہے یا ایسی وارستہ مزاجی میں بلا کی جدت اور طباعی چھپی ہوئی ہے، اسی وجہ سے شیخ ملھو نے اس کے مکتب میں زبردستی بٹھانے کی کوشش نہیں کی۔

شیخ چلی باغوں اور کھیتوں کی طرف اکثر نکل جاتا اور کھلے میدانوں میں گھنٹوں وہ اس بات کی کوشش کرتا کہ دوڑ کے آسمان کی جھکی ہوئی دیوار کو چھو لے۔ ہر بار کی ناکامی سے وہ ایک منٹ کے لیے بھی مایوس نہ ہوا اور ہمت سے یہی باور کر لیتا کہ کل ضرور دیوار تک پہنچ جاؤں گا۔

وہ اکثر چلتے چلتے یہ خیال کرتا کہ دونوں پاؤں ایک ساتھ اُٹھیں اور ساتھ ہی زمین پر پڑیں تو زیادہ تیزی سے راہ طے ہو۔ اس امتحان میں وہ دیر تک اُچھلتا اور منہ ہاتھ کی چوٹوں کی پروا نہ کرتا۔ اس کو یقین تھا کہ چند روز میں میرے دونوں پاؤں ضرور ساتھ اُٹھنے لگیں گے۔

وہ انتہا کا نازک مزاج اور لطافت پسند تھا۔ بارہا اُس نے صرف اس لیے کپڑے اُتار کے پھینک دیے کہ میرا جسم بوجھ پڑنے سے کُچل نہ جائے۔ شب برات میں اس کے باپ نے آتش بازی منگوا دی۔ چونکہ برسات کا موسم تھا۔ چھچھوندریں، پھل جھڑیاں، انار وغیرہ سب نمی کی وجہ سے چھوٹتے نہ تھے۔ شیخ چلی سب گھر والوں کی آنکھ بچا کے اپنی طباعی کے جوہر دکھانے چاہے اور ایک بڑی سی پتیلی میں ساری آتش بازی بھر کے چولہے پر چڑھا دی۔ آنچ تیز کر دی۔ مطلب یہ تھا کہ اس ترکیب سے آتشبازی سوکھ جائے گی مگر دم بھر میں پتیلی تیز ہوئی اور چھچھوندروں نے زور باندھا۔ شیخ چلی نے اس کا تدارک پہلے ہی سوچ لیا تھا۔ گھڑا بھر پانی چھوڑ دیا اور اس طرح اپنی آتش بازی بچالی۔

اس عمر تک اُس کے جس قدر حالات معلوم ہوئے اُس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ معمولی طبیعت کا لڑکا نہ تھا بلکہ ذکاوت خداداد سے فوق العادت حرکتیں اس کی زندگی کے حصے کی نسبت یہ راے قائم کرنے پر مجبور کرتی ہیں کہ وہ ایک بڑا مدبر اور موجد ہونے والا ہے۔ اس وجہ سے ہم زیادہ تفصیل سے نہیں لکھتے۔ بلکہ اُس کی کسر اُس کے شباب اور جوانی کے حالات میں نکل جائے گی۔ تاہم بعض واقعات جو بالکل اس کی طبع زاد خاص ہوں گے ہم بیان کرتے جائیں گے۔