حوصلے کیوں نہ دل چرخ کہن کے نکلے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حوصلے کیوں نہ دل چرخ کہن کے نکلے  (1934) 
by ابراہیم عاجز

حوصلے کیوں نہ دل چرخ کہن کے نکلے
مثل‌ یوسف نہ پھرے جو ہیں وطن کے نکلے

مر مٹے جو تری الفت میں وہ آزاد ہوئے
جیتے جی بند سے وہ رنج و محن کے نکلے

میں تو خوش ہو کے عوض اس کے دعائیں دوں گا
منہ سے دشنام جو اس غنچہ دہن کے نکلے

گالیاں دے کے تو کر پیار سے باتیں اے شوخ
ہم تو شیدا ترے انداز سخن کے نکلے

سرفروشوں کو خبر دو سر مقتل آئیں
ہاتھ میں تیغ لئے آج وہ تن کے نکلے

سرو‌ و شمشاد و صنوبر جو کھڑے ہیں لب جو
علم سبز ہیں ماتم میں حسن کے نکلے

گھر سے ہم اپنے گناہوں کی حیا سے عاجزؔ
منہ چھپائے ہوئے گھونگھٹ میں کفن کے نکلے

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse