حلقے نہیں ہیں زلف کے حلقے ہیں جال کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حلقے نہیں ہیں زلف کے حلقے ہیں جال کے
by اکبر الہ آبادی

حلقے نہیں ہیں زلف کے حلقے ہیں جال کے
ہاں اے نگاہ شوق ذرا دیکھ بھال کے

پہنچے ہیں تا کمر جو ترے گیسوئے رسا
معنی یہ ہیں کمر بھی برابر ہے بال کے

بوس و کنار و وصل حسیناں ہے خوب شغل
کمتر بزرگ ہوں گے خلاف اس خیال کے

قامت سے تیرے صانع قدرت نے اے حسیں
دکھلا دیا ہے حشر کو سانچے میں ڈھال کے

شان دماغ عشق کے جلوے سے یہ بڑھی
رکھتا ہے ہوش بھی قدم اپنے سنبھال کے

زینت مقدمہ ہے مصیبت کا دہر میں
سب شمع کو جلاتے ہیں سانچے میں ڈھال کے

ہستی کے حق کے سامنے کیا اصل این و آں
پتلے یہ سب ہیں آپ کے وہم و خیال کے

تلوار لے کے اٹھتا ہے ہر طالب فروغ
دور فلک میں ہیں یہ اشارے ہلال کے

پیچیدہ زندگی کے کرو تم مقدمے
دکھلا ہی دے گی موت نتیجہ نکال کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse