حقیقت سے زباں آگاہ کر لے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حقیقت سے زباں آگاہ کر لے
by نسیم دہلوی

حقیقت سے زباں آگاہ کر لے
یہ اسم اللہ بسم اللہ کر لے

دھن سے دور کر قفل دوئی کو
زباں مفتاح الا اللہ کر لے

کدورت دل سے کھو لہو و لعب کی
سعادت سے صفا ہے راہ کر لے

مبارک باد عیش و جاہ و دولت
حظوظ عمر خاطر خواہ کر لے

کہاں فرصت زمان کشمکش میں
مناسب ہے ابھی کچھ راہ کر لے

جسے دیکھا نہ دیکھ اس کو کبھی تو
نہ دیکھا جس کو اس کی چاہ کر لے

سخا ہمت مروت ہیں ترے پاس
کوئی ہم راہ تو ہم راہ کر لے

بھلاوا ہے طلسم زندگانی
وداع حب عضو جاہ کر لے

نسیم دہلویؔ یہ آرزو ہے
کہیں اپنا مجھے اللہ کر لے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.