حقائق اشیا اور معشوق حقیقی
تصوف کا راستہ عام شاہراہ سے اس قدر الگ ہے کہ نیا شخص اس عالم میں آتا ہے تو ہرطرف سے اس کے کان میں یہ صدائیں آتی ہیں کہ اس نے آج تک جو کچھ دیکھا تھا، سنا تھا، سمجھا تھا، سب غلط ہے، لیکن ایک مدت کا تجربہ، علم اوریقین دفعتاً بدل نہیں سکتا، اس لئے انسان کوخواہ مخواہ شبہ پیداہوتا ہے کہ خود یہ عالم، وہمیات کاعالم ہے، جہاں بداہت، مشاہدے، تجربے کی کچھ قدرنہیں۔ حضرات صوفیہ بھی اس بات کوجانتے ہیں کہ جوکچھ وہ سمجھانا چاہتے ہیں، آسانی سے سمجھ میں آنے کی بات نہیں۔ اس لئے تلقین وہدایت سے پہلے ان کو عام طرح پر اس مسئلے کی طرف لوگوں کومتوجہ کرنا پڑتا ہے کہ حقائق اشیاکیا ہیں؟ وہ پہلے یہ تلقین کرتے ہیں کہ ہرچیزکی حقیقت کاپتا لگاؤ کہ وہ اصل میں کیاہے۔ پھر نہایت کثرت سے مثالوں کے ذریعے سے سمجھاتے ہیں کہ جس چیز کو تم ایک چیز کی حقیقت سمجھتے ہو، یہ اس کی حقیقت نہیں۔ خواجہ فریدالدین عطارفرماتے ہیں،
اگراشیا چنین بودی کہ پیداست
سوال مصطفے کی آمدی راست
باحق، مہتردین گفت، الہی!
بمن بنمای اشیا را کما ہی
(یعنی رسول اللہ صلعم)
خداوند کہ این اشیا چگونہ است
کہ درچشم تو اکنون باژگونہ است
یعنی اگر تمام چیزیں درحقیقت ایسی ہی ہیں جیسی ظاہر میں نظرآتی ہیں، تورسول اللہ صلعم یہ کیوں فرماتے کہ ’’اے خدا! مجھ کواشیاکو اس طرح دکھاجس طرح وہ واقع میں ہیں۔‘‘
سحابی کہتا ہے،
ہرچیز کہ پیداست، نمودست نہ بود
بعد ست کبود ییکہ بینی، نہ سما
جوکچھ دکھائی دیتا ہے یہ نمود ہے، حقیقت نہیں۔ یہ نیلا نیلا جو نظر آتا ہے، آسمان نہیں، بلکہ بعد نظر ہے۔
مولانا روم نے اس مسئلے کوسمجھانے کے لئے پہلے محسوسات کولیا ہے۔ اور کثرت سے مثالیں دے کر بتایا ہے کہ جوچیز علانیہ محسوس نظرآتی ہے، وہ اصل نہیں بلکہ اس میں جو چیز اصلی ہے، وہ محسوس نہیں،
نیست را بنمود ہست آن محتمم
ہست رابنمود بر شکل عدم
بحر را پوشید وکف کرد آشکار
باد را پوشیدو بنمودت غبار
چوں منارہ، خاک ِپیچاں در ہوا
خاک از خود چوں برآید برعلا
خاک را بینی بہ بالا ای علیل
باد رانہ، جز بہ تعریف و دلیل
کف ہمی بینی روانہ ہرطرف
کف پی دریا نہ دارد منصرف
کف بہ حس بینی و دریا از دلیل
فکر پنہاں، آشکار اقال و قیل
نفی را اثبات می پندا شیتم
دیدہ معدوم بینی داشتیم
این عدم را چوں نشانداندر نظر
چون نہاں کرد آں حقیقت او بصر
ایں جہان نیست بس ہستاں شدہ
واں جہان ہست بس پنہاں شدہ
یعنی مثلاً بگولا جب اٹھتا ہے تو ہم کو جو چیز نظر آتی ہے وہ خاک ہے۔ لیکن اصل میں جو چیز ہے اور جس چیز نے خاک کو حرکت دی، وہ ہوا ہے۔ خاک علانیہ نظرآتی ہے، لیکن ہوا کو دلیل اور قیاس سے ثابت کرنا پڑتاہے۔ ہم جب بات چیت اور بحث ومباحثہ کرتے ہیں تو گفتگو اوربات چیت ہرشخص بداہۃ محسوس کرتاہے، لیکن بات کاجو اصلی سبب ہے، یعنی فکر اور تعقل، وہ مخفی ہے۔ غرض جوچیزیں علانیہ نظرآتی ہیں وہ اصل چیزیں نہیں اورجو اصلی چیزیں ہیں وہ محسوس اوربدیہی نہیں۔
جوچیز جس قدر حقیقی اور واقعی ہے، اسی قدر غیرمحسوس اورغیرمشاہد ہے۔ آج کل کے مذاق کے موافق اس کویوں سمجھو کہ سب سے یقینی اور قطعی چیز مادہ ہے۔ لیکن زیادہ غور کرو تومعلوم ہوتاہے کہ مادے میں سے جوچیز محسوس اورمشاہدہے، وہ صرف رنگ اور مقدار ہے۔ باقی کوئی چیز حواس سے محسوس نہیں ہوسکتی۔ ہم قیاس کرتے ہیں کہ چونکہ رنگ اور طول وعرض خود نہیں قائم ہوسکتے، اس لئے کوئی اورچیز ہے جس میں رنگ اورطول وعرض قائم ہے، لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جوہر خود کوئی چیز نہیں، بلکہ چند عرضوں کا مجموعہ ہے، وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مادہ کوئی چیزنہیں، چند اغراض جمع ہوگئے ہیں جن کوہم مادہ کہتےہیں۔ غرض کسی چیزکے موجود ہونے کامدار صرف محسوس اورمشاہد ہونے پر نہیں۔
اجمالی طورپر جب یہ ذہن نشیں ہوجاتاہے کہ حقائق اشیا میں ہم غلطی کرسکتے ہیں اورکرتے ہیں، توحضرات صوفیہ خاص خاص چیزوں کی نسبت جن سے تصوف کوتعلق ہے، تلقین کرتے ہیں کہ ان کی وہ حقیقت نہیں، جوعام لوگ سمجھتے ہیں۔ مثلاً تمام عالم اس پرمتفق ہے کہ زندگی کا اصلی مقصد حصول لذت ہے۔ حضرات صوفیہ بھی اسی کے قائل ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ پہلےاس کافیصلہ کرنا چاہئے کہ اصلی لذت کیاہے؟ شروع سے لو، بچہ کھیل کود، آلات لہوولعب، رنگین اور ملمع چیزوں کوپسند کرتاہے۔ بڑاہوکر سمجھتاہے کہ یہ طفلانہ مذاق تھا۔ اب خوش لباسی، عیش پرستی، سیروتفریح پر جان دیتاہے۔ جب معلومات اور خیالات میں اورترقی ہوتی ہے توسمجھتا ہے کہ یہ جوانی کی ترنگیں تھیں،اب ان کا وقت نہیں، اب وہ زیادہ اونچے کاموں میں مصروف ہوتا ہے،علم اور قابلیت پیدا کرتاہے، ناموری اور عزت کا جویا ہوتاہے۔ دولت وجاہ، عزت وشہرت، عہدہ ومنصب حاصل کرتا ہے۔ مقتدائے عام بن جاتاہے اوریہ گویاکمال زندگی کا اخیر درجہ ہے۔ لیکن حقیقت شناسی اس سے بھی آگے بڑھتی ہے تومعلوم ہوتاہے کہ یہ بھی بےحقیقت چیزیں تھیں۔ اسی طرح یہ سلسلہ آگے بڑھتا جاتا ہے، لیکن بالآخر ایک حد قرار پاجاتی ہے اور ارباب ظاہر کے نزدیک وہی حاصل زندگی ہوتاہے۔
حضرات صوفیہ فرماتے ہیں کہ جس طرح بچپن سے لےکر آج تک تم نے غلطیاں کیں، اب بھی غلطیوں کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ جس طرح ترقی کے مدارج نے پچھلی باتیں بے حقیقت ثابت کیں، اب بھی مدارج ترقی باقی ہیں اوران کی کوئی انتہا نہیں۔ ایک درجہ طےہوگا، دوسرا پیش آئے گا۔ دوسرا طے ہوگا، تیسرا پیش آئے گا اور وہکذا۔ لیکن یہ درمیانی منزلیں بھی ذوق اوروجدان سے خالی نہیں۔ اس لئے،
رہ روان راخستگی راہ نیست
عشق خود راہ است و ہم خود منزل است
حسن وجمال ایسی چیز ہے جوتمام عالم کو مرغوب ہے، لیکن لوگ یہ فیصلہ نہیں کرتے کہ جمال اصلی کیاچیز ہے؟ لوگ جن چیزوں کے حسن کوپسند کرتے ہیں، وہ عارضی حسن ہے، اصلی نہیں۔ دیواراگر آفتاب کے عکس پڑنے سے روشن ہو جائے تو دیوار کو روشن نہیں کہنا چاہئے، بلکہ حقیقت میں آفتاب روشن ہے۔ اسی طرح جن چیزوں میں عارضی اوصاف ہیں، وہ حقیقت میں صاحب اوصاف نہیں۔ مولاناروم کہتے ہیں،
ہمچو آں ابلہ کہ تاب آفتاب
دید بر دیوار وحیران شد شتاب
عاشق دیوار رشد کا یں باضیافت
بے خبر کایں عکس خورشید سماست
چوں بہ اصل خویش پیوست آں ضیا
دید دیوار سیہ ماندہ بہ جا
اوبماندہ دوراز مطلوب خویش
سعی ضائع، رنج باطل پای ریش
گرچہ آہن سرخ شد، او سرخ نیست
پر تو عاریت آتش زنیست
گرشود پرنور روزن یا سرا
تو مدان روشن، مگر خورشید را
ورد ددیوار گوید رو شنم
پر توِ غیری ندارم، ایں منم
پس بگوید آفتاب ای نارشید
چونکہ من عائب شوم آید پدید
سبز ہا گویند ما سبزاز خودیم
شادو خندانیم وبس زیبا خدیم
فصل تابستان بگوید ای امم
خویش رابینید چوں من بگزرم
تن ہمی ناز دبہ خوبی وجمال
روح پنہاں کردہ فر پرو بال
گویدش، ای مزبلہ تو کیستی
یک دو روز از پرتوِمن زیستی
غنج ونازت می نہ گنجددر جہاں
باش کہ تامن شوم از تونہاں
پر توروح ست نطق چشم وگوش
پرتو آتش بود درآب جوش
اسی غلطی کا نتیجہ ہے کہ لوگ حسن کے معنی رنگ روپ، چمک دمک، تناسب اعضا، اعتدال جسم، نازک ادائی، شوخی وغیرہ وغیرہ سمجھتے ہیں۔ اوران کے ذہن میں آ نہیں سکتا کہ جس چیزمیں یہ کچھ نہ ہو، وہ بھی خوبصورت ہوسکتی ہے۔ حالانکہ تمام عالم میں جو حسن ہے، یہاں تک کہ آفتاب کی چمک، قوس قزح کی رنگینی، آسمان کی نیل گونی، سبزے کا روپ، بچپن کا نمو، شباب کی تازگی، بڑھاپے کا نور، سب پرحسن حقیقی کاایک ذرا سا پرتو پڑگیاہے،
آں شعاعی بود بر دیوار شان
جانب خورشید وارفت آں نشان
بر ہر آں چیزی کہ افتد آں شعاع
تو برآں ہم عاشق آئی اے شجاع
عشق تو بر ہرچہ آں موجود بود
آں زوصف حق چوز راندود بود
چوں زری با اصل رفت و مس بماند
از زری خویشتن مفلس بماند
طبع سیر آمد طلاق او بخواند
پشت بروی کردو دست از وی فشاند
از زراندود صفاتش پا بکش
از جہالت قلب را کم گوی خوش
کان خوشی در قلب ہا عاریتی ست
زیر زینت مایہ بی زینتی ست
زر زروی قلب درکان می رود
سوی آں کان تو برو، کان میرود
نو راز دیوار تا خور می رود
تو بدان خور روکہ در خورمی رود
زاں سپس بستان تو آب آز آسماں
چوں ندیدی تو وفادر ناوداں
غرض تمام اشیا میں جواوصاف ہیں عارضی ہیں۔ اصل کوئی اورچیز ہے، جہاں سے ان اوصاف کا فیضان ہوتا ہے، یا جوان اوصاف کے ساتھ حقیقتاً متصف ہے۔ جب یہ مقدمات اوریہ سلسلہ ذہن نشین ہو جاتا ہے توحضرات صوفیہ کی اصلی تلقین شروع ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ تم جن چیزوں کواپنا مقصد، اپنامطلوب، اپنا حاصل زندگی قرار دیتے ہو، غورسے دیکھو وہ تمہارا حقیقی مقصد زندگی ہونے کے قابل ہے یانہیں۔ جس چیز کوتم نے حسین سمجھا تھا وہ خود حسین نہ تھی، بلکہ حسن حقیقی کا اس پر پر تو پڑ گیا تھا، جو بہت جلد جاتا رہا۔ اس لئے تمہارا منتہائے خیال اور منتہائے خواہش حسن حقیقی، جمال حقیقی اور معشوق حقیقی ہوناچاہئے۔ اوریہی تصوف کی جان اور اس کا دین وایمان ہے۔
ابر را تابی اگرہست از مہ است
ہر کہ مہ خواند ابر را او گمرہ است
نور مہ برابر چوں منزل شدہ است
روی تاریکش زمہ مبدل شدہ است
گرچہ ہمرنگ مہ است و دولت ست
اندر ابرآں نورمہ عاریت ست
دایہ عاریت بود روزی دوچار
مادرا! مارا تو گیر اندر کنار
من نخواہم دایہ، مادر خوش تر است
موسیم من، دایہ من مادر است
من نخواہم لطف حق از واسطہ
کہ ہلاک خلق شد ایں رابطہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |