حضرت دل یہ عشق ہے درد سے کسمسائے کیوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حضرت دل یہ عشق ہے درد سے کسمسائے کیوں
by بیخود دہلوی

حضرت دل یہ عشق ہے درد سے کسمسائے کیوں
موت ابھی سے آئے کیوں جان ابھی سے جائے کیوں

عشق کا رتبہ ہے بڑا عشق خدا سے جا ملا
آپ نے کیا سمجھ لیا آپ یہ مسکرائے کیوں

میرا غلط گلہ سہی ظلم و جفا روا سہی
ناز ستم بجا سہی آنکھ کوئی چرائے کیوں

تجھ سے زیادہ نازنیں اس میں ہزاروں ہیں حسیں
دل ہے یہ آئینہ نہیں سامنے تیرے آئے کیوں

عاشق نامراد کو اس کی رضا پہ چھوڑ دو
اس کی اگر خوشی نہ ہو غم سے نجات پائے کیوں

حوصلۂ ستم بڑھے تیغ و سناں کا دم بڑھے
ایک ہی تیر ناز میں کیجیئے ہائے ہائے کیوں

غالبؔ خوش بیاں کہاں بیخودؔ خستہ جاں کہاں
طبع کا امتحاں کہاں شاد مجھے ستائے کیوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse