حسینوں کے گلے سے لگتی ہے زنجیر سونے کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حسینوں کے گلے سے لگتی ہے زنجیر سونے کی
by اکبر الہ آبادی

حسینوں کے گلے سے لگتی ہے زنجیر سونے کی
نظر آتی ہے کیا چمکی ہوئی تقدیر سونے کی

نہ دل آتا ہے قابو میں نہ نیند آتی ہے آنکھوں میں
شب فرقت میں کیوں کر بن پڑے تدبیر سونے کی

یہاں بیداریوں سے خون دل آنکھوں میں آتا ہے
گلابی کرتی ہے آنکھوں کو واں تاثیر سونے کی

بہت بے چین ہوں نیند آ رہی ہے رات جاتی ہے
خدا کے واسطے جلد اب کرو تدبیر سونے کی

یہ زردہ چیز ہے جو ہر جگہ ہے باعث شوکت
سنی ہے عالم بالا میں بھی تعمیر سونے کی

ضرورت کیا ہے رکنے کی مرے دل سے نکلتا رہ
ہوس مجھ کو نہیں اے نالۂ شب گیر سونے کی

چھپر کھٹ یاں جو سونے کی بنائی اس سے کیا حاصل
کرو اے غافلو کچھ قبر میں تدبیر سونے کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse