حسینوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حسینوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی
by حفیظ جونپوری

حسینوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی
نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی

زمانہ فصل گل کا اور آغاز شباب اپنا
ابھی سے تو نے توبہ کی بھی اے زاہد کہی اچھی

جفا دوست اس کو کہتا ہے کوئی کوئی وفا دشمن
ہمارے ساتھ تو اس نے نباہی دوستی اچھی

تری خاطر سے زاہد ہم نے توبہ آج کی ورنہ
گھڑی بھر غم غلط کرنے کو بس وہ چیز تھی اچھی

زیادہ اے فلک دے رنج و راحت ہم کو جو کچھ دے
نہ دو دن کا یہ غم اچھا نہ دو دن کی خوشی اچھی

کبھی جب ہاتھ مل کر ان سے کہتا ہوں کہ بے بس ہوں
تو وہ ہنس کر یہ کہتے ہیں تمہاری بے بسی اچھی

جو سچ پوچھو حسینوں کا حیا نے رکھ لیا پردہ
نکل چلتے گھروں سے یہ تو ہوتی دل لگی اچھی

ہم آئیں آپ میں یارب وہ جس دم آئیں بالیں پر
ہجوم رنج تنہائی سے ہے یہ بے خودی اچھی

محبت کے مزے سے دل نہیں ہے آشنا جس کا
نہ اس کی زندگی اچھی نہ اس کی موت ہی اچھی

وہ میکش ہوں کہ دے کر دونی قیمت سب کی سب لے لی
کسی سے جب سنا میں نے کہ بھٹی میں کھنچی اچھی

اسے دنیا کی سو فکریں ہمیں اک رنگ ناداری
کہیں منعم کی دولت سے ہماری مفلسی اچھی

خوشی کے بعد غم کا سامنا ہونا قیامت ہے
جو غم کے بعد حاصل ہو وہ البتہ خوشی اچھی

نہ چھوٹے گی محبت غیر کی ہم سے نہ چھوٹے گی
اجی یہ بات تم نے آج تو کھل کر کہی اچھی

ہمارے دیدہ و دل میں ہزاروں عیب نکلیں گے
تمہارا آئنا اچھا تمہاری آرسی اچھی

ترے اس جبہ و دستار سے رندوں کو کیا مطلب
جسے جو وضع ہو مرغوب اے زاہد وہی اچھی

کہے سو شعر تم نے سست تو حاصل حفیظؔ اس کا
غزل ہو چست چھوٹی سی تو بیتوں کی کمی اچھی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse