حسن ہر نونہال رکھتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حسن ہر نونہال رکھتا ہے
by میر محمدی بیدار

حسن ہر نونہال رکھتا ہے
کوئی تجھ سا جمال رکھتا ہے

مجھ سے ہو تیرے جور کا شکوہ
یہ بھلا احتمال رکھتا ہے

تجھ سے کچھ اپنا عرض حال کرے
دل کب اتنی مجال رکھتا ہے

ماہ کیا ہے کہ جس سے دوں تشبیہ
حسن تو بے زوال رکھتا ہے

جیتے جی اس سے عاشق مہجور
کب امید وصال رکھتا ہے

تو کہاں اور اس کا وصل کہاں
یہ خیال محال رکھتا ہے

جی میں بیدارؔ تیرے ملنے کا
آہ کیا کیا خیال رکھتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse