حسن کی زبان سے
جہاں میں ہے ضیا مری میں حسن جلوہ کار ہوں
میں رونق اس چمن کی ہوں میں فصل نو بہار ہوں
میں زیب کائنات ہوں میں فخر روزگار ہوں
میں شاہد نہفتہ کا جمال آشکار ہوں
کہ آئینے میں دہر کے میں عکس کردگار ہوں
کلیم کو میں اپنا رخ نہ بے خطر دکھا سکا
سراغ میرے نور کا نہ کوہ طور پا سکا
نہ میں نظر میں آ سکا نہ عقل میں سما سکا
خیال میرے اوج پر نہ پر لگا کے جا سکا
میں حصن بے شکست ہوں میں راہ بے گزار ہوں
پڑی ہے اک خفیف سی نجوم پر کرن مری
کہ رکھتی ہے طواف میں سدا انہیں لگن مری
چھپی حجاب قدس میں ہے شمع انجمن مری
ستارے جل کے خاک ہوں جو دیکھ لیں پھبن مری
میں گنج آب و تاب ہوں میں بحر نور و نار ہوں
یہ چاندنی کی ٹھنڈکیں یہ دھوپ کی حرارتیں
یہ صبح کی صباحتیں یہ شام کی ملاحتیں
زمین کی یہ زینتیں فلک کی یہ لطافتیں
یہ بجلیوں کی شوخیاں یہ بادلوں کی رنگتیں
یہ رنگ روپ ہیں مرے میں ان میں آشکار ہوں
ہر ایک شاخسار میں مجھی سے آب و رنگ ہے
پھپکتے ہیں درخت جو یہ میری ہی امنگ ہے
پھدکتے ہیں پرند سب مجھی سے یہ ترنگ ہے
کرشمے دیکھ کر مرے ہر ایک عقل دنگ ہے
ہیں کھیل نت نئے مرے میں وہ طلسم کار ہوں
گلوں کے رنگ رنگ سے عیاں ہیں جھلکیاں مری
چمن کے غنچے غنچے میں شمیم ہے نہاں مری
زباں پہ پتے پتے کی رواں ہے داستاں مری
سرنگ پود پود کی جڑوں میں ہے دواں مری
میں روح سبزہ زار ہوں میں نازش بہار ہوں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |