حسن کو وسعتیں جو دیں عشق کو حوصلہ دیا
Appearance
حسن کو وسعتیں جو دیں عشق کو حوصلہ دیا
جو نہ ملے نہ مٹ سکے وہ مجھے مدعا دیا
ہاتھ میں لے کے جام مے آج وہ مسکرا دیا
عقل کو سرد کر دیا روح کو جگمگا دیا
دل پہ لیا ہے داغ عشق کھو کے بہار زندگی
اک گل تر کے واسطے میں نے چمن لٹا دیا
لذت درد خستگی دولت دامن تہی
توڑ کے سارے حوصلے اب مجھے یہ صلا دیا
کچھ تو کہو یہ کیا ہوا تم بھی تھے ساتھ ساتھ کیا
غم میں یہ کیوں سرور تھا درد نے کیوں مزا دیا
اب نہ یہ میری ذات ہے اب نہ یہ کائنات ہے
میں نے نوائے عشق کو ساز سے یوں ملا دیا
عکس جمال یار کا آئنۂ خودی میں ہے
یہ غم ہجر کیا دیا مجھ سے مجھے چھپا دیا
حشر میں آفتاب حشر اور وہ شور الاماں
اصغرؔ بت پرست نے زلف کا واسطا دیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |