حسن کو سمجھتا ہے عشق ہم زباں اپنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حسن کو سمجھتا ہے عشق ہم زباں اپنا  (1940) 
by علی منظور حیدرآبادی

حسن کو سمجھتا ہے عشق ہم زباں اپنا
ہے حقیقت ایسی ہی یا ہے یہ گماں اپنا

فاش ہم کریں کیونکر راز مدعا یابی
گم حصول مقصد میں حاصل بیاں اپنا

کارساز ہے کتنی دید و باز دید اپنی
مل گیا صلہ ہم کو بعد امتحاں اپنا

لطف رنجش بے جا آج دونوں پاتے ہیں
مسکرا رہے ہیں وہ دل ہے شادماں اپنا

ان کی دل فریبی کا یہ جواب ہے ورنہ
مجھ سا بد گماں سمجھے ان کو مہرباں اپنا

کارواں کے بھی ملتے کچھ نشاں یہ نا ممکن
کچھ اثر تو چھوڑے گی یاد کارواں اپنا

درد آشنا دل کو دیکھ کر میں کہتا ہوں
یاس دے نہیں سکتی آس کو مکاں اپنا

بیکسی کی منزل سے جس کی حد نہیں ملتی
اس زمیں پہ کھینچیں ہم کس طرح نشاں اپنا

کیا علاج ہے منظورؔ اس جنوں خرامی کا
منفعل ہوں مجنوں کو کہہ کے ہم عناں اپنا

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse