حسن پری اک جلوۂ مستانہ ہے اس کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حسن پری اک جلوۂ مستانہ ہے اس کا
by حیدر علی آتش

حسن پری اک جلوۂ مستانہ ہے اس کا
ہشیار وہی ہے کہ جو دیوانہ ہے اس کا

گل آتے ہیں ہستی میں عدم سے ہمہ تن گوش
بلبل کا یہ نالہ نہیں افسانہ ہے اس کا

گریاں ہے اگر شمع تو سر دھنتا ہے شعلہ
معلوم ہوا سوختہ پروانہ ہے اس کا

وہ شوخ نہاں گنج کی مانند ہے اس میں
معمورۂ عالم جو ہے ویرانہ ہے اس کا

جو چشم کہ حیراں ہوئی آئینہ ہے اس کی
جو سینہ کہ صد چاک ہوا شانہ ہے اس کا

دل قصر شہنشہ ہے وہ شوخ اس میں شہنشاہ
عرصہ یہ دو عالم کا جلو خانہ ہے اس کا

وہ یاد ہے اس کی کہ بھلا دے دو جہاں کو
حالت کو کرے غیر وہ یارانہ ہے اس کا

یوسف نہیں جو ہاتھ لگے چند درم سے
قیمت جو دو عالم کی ہے بیعانہ ہے اس کا

آوارگی نکہت گل ہے یہ اشارہ
جامے سے وہ باہر ہے جو دیوانہ ہے اس کا

یہ حال ہوا اس کے فقیروں سے ہویدا
آلودۂ دنیا جو ہے بیگانہ ہے اس کا

شکرانۂ ساقی ازل کرتا ہے آتشؔ
لبریز مئے شوق سے پیمانہ ہے اس کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse