حسن نے مان لیا قابل تعزیر مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حسن نے مان لیا قابل تعزیر مجھے
by دل شاہ جہانپوری

حسن نے مان لیا قابل تعزیر مجھے
نظر آئی ہے محبت کی یہ تقصیر مجھے

کیوں نہ ہو بادۂ سرجوش کی توقیر مجھے
مل گئی پیر خرابات سے تحریر مجھے

جلوۂ حسن کے مفہوم پہ جب غور کیا
ایک دھندلی سی نظر آئی ہے تصویر مجھے

اب مری وحشت رسوا کا عجب عالم ہے
کر دیا آپ نے وابستۂ زنجیر مجھے

بے تکلف رخ زیبا سے اٹھائے وہ نقاب
حسن خود پائے گا ایک پیکر تصویر مجھے

زندگی اک نئے عالم میں نظر آتی ہے
لے چلی آج کہاں گردش تقدیر مجھے

کھچ گئی دل کشئ حسن مری نظروں میں
جی بہلنے کو ملی آپ کی تصویر مجھے

زلف شب گوں رخ انور کی ستائش کو سوا
کوئی مضمون نہ ملا قابل تحریر مجھے

حسن دل کش کے تلون پہ نظر جب پہنچی
نہ رہا پھر گلۂ گردش تقدیر مجھے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse