حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے
by مرزا غالب

حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے
اس سے میرا مہہ خورشید جمال اچھا ہے

بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے

بے طلب دیں تو مزا اس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

ہم سخن تیشہ نے فرہاد کو شیریں سے کیا
جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے

قطرہ دریا میں جو مل جاے تو دریا ہو جائے
کام اچھا ہے وہ جس کا کہ مآل اچھا ہے

خضر سلطاں کو رکھے خالق اکبر سرسبز
شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچھا ہے

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse