حسن سرشار ترا داروۓ بے ہوشی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
حسن سرشار ترا داروۓ بے ہوشی ہے
by میر محمدی بیدار

حسن سرشار ترا داروۓ بے ہوشی ہے
ہوش میں کون ہے کس کو سر مے نوشی ہے

کچھ اگر بے ادبی ہووے تو معذور رکھو
صحبت میکشی و عالم بے ہوشی ہے

جوں ہلال آپ سے یکسر میں ہوا ہوں خالی
تجھ سے اے مہر لقا شوق ہم آغوشی ہے

بانگ گل باعث گردن شکنی ہے گل کی
غنچہ سالم ہے کہ جب تک اسے خاموشی ہے

سر چڑھا جائے ہے اے زلف کسو کی تو مگر
اس پری رو سے تجھے آج جو سرگوشی ہے

آپ ہو جائے ہے اس تیغ نگہ کے آگے
گرچہ آئینہ کے جوہر سے ذرا پوشی ہے

عمر غفلت ہی میں بیدارؔ چلی جانی ہے
یاد ہے جس کی غرض اس سے فراموشی ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.